Maktaba Wahhabi

57 - 114
کے بعد اس کی عدالت متحقق ہوجائے گی ۔ [1]لیکن حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نہیں ، اس لئے نہیں کہ اس جھوٹے کی توبہ کا اعتبار کب کیا جائے گا؟؟ اگر اعتبار ہے تووہ اللہ کے ساتھ ہے لیکن جہاں تک روایت کا معاملہ ہے وہاں اس کا اعتبار نہیں ہوگا۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے زیاد بن میمون کے ترجمے میں بڑی عجیب بات کہی ہے۔ وہ کہتا ہے:استغفراللّٰه وضعت ھذہ الاحادیث اللہ مجھے معاف فرمائے میں نے یہ احادیث وضع کی ہیں۔ [2] اب یہ اس نے اعتراف بھی کیا اور بخشش بھی چاہی۔ لیکن ابو داؤد اور عبدالرحمان بن مہدی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ زیاد نے کہا کہ اتوب لیکن ہم نے اس کو دیکھا کہ توبہ کے باوجود وہ جھوٹی روایتیں بیان کرنے سے باز نہیں آیا۔ [3] اسی بنیاد پر حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جھوٹے کی توبہ کا اعتبار ہم کیسے کریں؟ کیونکہ ہمیں ایسے جھوٹے نظر آتے ہیں جو توبہ کے بعد بھی جھوٹ بولنے سے باز نہیں آتے۔ رہا اس کا توبہ کرنا اور اللہ کا معاف کرنا یہ معاملہ آخرت کا ہے ہم تو اپنے تجربے میں یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے سامنے بعض ایسے رواۃ موجود ہیں کہ جنہوںنے جھوٹ بولا اور توبہ بھی کی اور جھوٹی روایتیں بھی بیان کرتے رہے۔ ۲۔عدالت مجروح ہونے کا سبب تہمت بالکذب اسی طرح دوسری صورت یہ ہے کہ وہ نبی کی طرف جھوٹ تو نہیں بولتا لیکن آپس میں جھوٹ بولتا ہے،دیکھیں محدثین نے کتنا فرق کیا ہے؟ ایک ہے کذاب جو جھوٹی روایتیں بیان کرتا ہے اور ایک ہے متہم بالکذب جو جھوٹی روایتیں تو بیان نہیں کرتا لیکن آپس کی گفتگو میں جھوٹ بولتا ہے۔ محدثین کا کتنا انصاف ہے؟ جتنا کسی کا جرم ہے اتنا ہی اس کے کھاتےمیں ڈالتے ہیں اس سے بڑھ کر اسے مکلف نہیں ٹھہراتے ۔
Flag Counter