Maktaba Wahhabi

106 - 114
ہے، یہ انسانی کمزوری ہے۔ اس کمزوری کو زائل کرنے کا حل یہی ہے کہ جرح و تعدیل وغیرہ نقل کرتے وقت غفلت سے کام نہ لیا جائے۔ بالکل اسی طرح ایک معروف مثال ہے، مؤمل بن اسماعیل کی ،تہذیب میں بھی ہے، میزان میں بھی ہے، کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے منکر الحدیث کہاہے ۔[1]حالانکہ امر واقع یہ ہے کہ امام بخاری نے مؤمل بن اسماعیل کو نہیں کہا بلکہ مؤمل بن سعید کو کہا ہے،[2]دونوں کا ترجمہ اوپر نیچے ہے، بس نقل کرنے میں یہ تسامح ہوا ہے، اور پھر مختصرات میں اسی طرح بغیر مراجعت نقل ہوتا گیا ہے۔یہ مؤمل کا ہی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ اور بھی اس طرح کی مثالیں موجود ہیں، جس طرح علاء بن حارث ہیں ، اس کے بارے میں بھیمیزان میں لکھا ہوا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کو منکر الحدیث کہا ہے،[3]حالانکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے علاء بن حارث کے بارے میں نہیں ، بلکہ اس کے بعد علاء بن کثیر کے بارے میں ہے،[4]اب علاء بن کثیر کی جرح علاء بن حارث کے بارے میں نقل ہوگئی ، تو یہ انسانی فطری تقاضہ اور کمزوری ہے، ایسا ہوجاتا ہے،اب اس کا حل یہی ہے کہ مختصرات میں جرح دیکھنے کے بعد اصل کی طرف مراجعت کرلینی چاہئے۔ اسی طرح آپ دیکھیں عمر بن نافع ، مولیٰ ابن عمر ہیں اور ایک راوی اسی نام پر ہے، عمر بن نافع الثقفی ، ابن عدی رحمہ اللہ نے عمر بن نافع مولیٰ ابن عمر کے ترجمے میں یحی بن معین کا قول نقل کیا ہے، لیس حدیثہ بشئ [5]، جبکہ آپ تہذیب میں دیکھیں تو یحی بن معین کا یہی قول عمر بن نافع الثقفی
Flag Counter