Maktaba Wahhabi

102 - 114
کے پاس حاضر ہوا ہے ، مسیلمہ کا نبیﷺ کےپاس حاضر ہونا منقول ہے۔ بدایہ ہی میں ہے[1]کہ یہاں سے جانے کے بعد دعوی نبوت کیا ہے، اور یہ خود حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے لکھا ہے۔ اور یہ واقعہ بتلاتا ہےکہ جب اس نے دعوی نبوت کیاتو ابھی نبی مکہ میں تھے ۔لہذا تاریخی اعتبار سے یہ حکایت درست ثابت نہیں ہوتی۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ احادیث ہوں یا واقعات ہوں ان کو پرکھنے کے لئے یہ سنین کا علم ملحوظ رکھنا بھی ضروری ہے۔ یہاں ایک اور لطیفے کی بات سنئے! السیر الکبیر امام محمد رحمہ اللہ کی کتاب ہے، اس کے بارے میں علامہ السرخسی نے اور انہی کے حوالے سے عقود رسم المفتی میں ابن عابدین رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ السیر الکبیر جب امام محمد نے لکھی تو امام اوزاعی رحمہ اللہ نے اس کو دیکھا اور کہا کہ یہ سیر کا علم اہل کوفہ کا علم نہیں یہ اہل شام کا علم ہے، امام محمد رحمہ اللہ کو پتہ چلا تو انہوں نے السیر الکبیر لکھی، اور اس سے امام اوزاعی رحمہ اللہ مبہوت ہوگئے، اور ساتھ یہ بھی لکھا ہےکہ’’ھو آخر تصنیف صنفه فی الفقه‘‘ یہ امام محمد کی فقہ میں آخری کتاب ہے ۔[2] اب سنین کے دائرے میں اس حکایت کو دیکھتے ہیں تو امام محمد ۱۳۲ ھ میں پیدا ہوئے اور ۱۸۹ھ میں فوت ہوئے ہیں، جبکہ امام اوزاعی ۱۵۸ھ میں فوت ہوئے ہیں۔ گویا کہ یہ امام اوزاعی کی وفات کے بعد امام محمد بن حسن شیبانی ۳۱ سال زندہ رہتے ہیں ، اس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ ۳۱ سالوں میں السیر الکبیر کے بعد کچھ نہیں لکھا حالانکہ یہ امر واقع کے خلاف ہے امام محمد رحمہ اللہ نے تو
Flag Counter