پھر اللہ تعالیٰ نے مذکورہ صفات کے حامل ایمان کے دعویٰ داروں کو خبردار کیا ہے کہ جو کچھ انکے دل میں ہے اور جوکچھ وہ اپنے قول کے خلاف چھپا رہے ہیں اللہ تعالیٰ جانتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ وہ انہیں سمجھائیں اور ان سے ان کے بارے میں کارگر بات کہیں۔ پھر بیان فرمایا ہے کہ رسولوں کے بھیجنے میں حکمت یہ ہے کہ انہیں کی اتباع اور انہیں کی اطاعت کی جائے ان کے علاوہ کسی آدمی کی نہیں ۔چاہے اس کی عقل وفکر کتنی ہی بلند اور اس کی معلومات کتنی ہی وسیع ہوں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی اس ربوبیت کی قسم کھائی ہے جو اس کے رسول کے تئیں ایک خاص قسم کی ربوبیت ہے اور جس میں آپ کی رسالت کی سچائی کی طرف اشارہ ہے۔ اس ربوبیت کی پختہ قسم کھائی گئی ہے کہ ایمان تین باتوں کے بغیر صحیح نہیں ہوسکتا: اول:ہر نزاع کافیصلہ اللہ کے رسول کے یہاں ہو۔ دوم: دل اس فیصلے کو بخوشی قبول کریں اور اس سے طبیعت میں کوئی تنگی وہچکچاہٹ نہ ہو۔ سوم: رسول جو فیصلہ فرمادیں اس کو کسی سستی اور بے رخی کے بغیر قبول کرکے نافذ کیا جائے اور سرتسلیم خم کردیا جائے۔دوسری قسم کی آیت: {وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللّٰہُ فَأُوْلٰئِکَ ھُمُ الْکَافِرُوْنَo} (المائدہ: ۴۳) ’’اور جو شخص اللہ کی نازل کردہ شریعت کے موافق فیصلہ نہ کرے سوایسے لوگ کافر ہیں۔‘‘ اور فرمایا: {وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللّٰہُ فَأُوْلٰئِکَ ھُمُ الْظَّالِمُوْنَo} (المائدہ: ۴۴) ’’اور جوشخص اللہ کی نازل کردہ شریعت کے موافق فیصلہ نہ کرے سوایسے لوگ ظالم ہیں۔‘‘ اور فرمایا: |