Maktaba Wahhabi

219 - 220
تھا سوائے اس کے کہ کوئی بھلائی نکل آئے اور باہم موافقت ہوجائے۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ اللہ کو معلوم ہے جو کچھ ان کے دلوں میں ہے ۔ سو آپ ان سے تغافل کرجایا کیجئے اور ان کو نصیحت فرماتے رہئے اور ان سے خاص ان کی ذات کے متعلق کافی مضمون کہہ دیجئے۔ اور ہم نے تمام پیغمبروں کو خاص اسی واسطے مبعوث فرمایا ہے کہ بحکم الٰہی ان کی اطاعت کی جائے اور اگر جس وقت اپنا نقصان کر بیٹھتے تھے اس وقت آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے پھر اللہ سے معافی چاہتے اور رسول بھی ان کے لیے معافی چاہتے تو ضرور اللہ کو توبہ قبول کرنے والا رحم کرنے والا پاتے ہیں۔ پھر قسم ہے آپ کے رب کی یہ لوگ ایمان درانہ ہوں گے جب تک یہ بات نہ ہو کہ ان کے آپس میں جو جھگڑاواقع ہو اس میں یہ لوگ آپ سے تصفیہ کرائیں پھر آپ کے تصفیہ سے اپنے دلوں میں تنگی نہ پائیں اور پورا پورا تسلیم کرلیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے مدعین ایمان کی جو کہ حقیقت میں منافق ہیں چند صفتیں بیان کی ہیں: پہلی یہ کہ وہ لوگ چاہتے ہیں کہ طاغوت سے فیصلہ کرائیں ۔ اور طاغوتی فیصلہ ہر وہ فیصلہ ہے جو اللہ اور رسول کے حکم کے خلاف ہو۔ یہی اس ذات کے حکم کے ساتھ طغیان اور سرکشی ہے جس کو اختیارِ فیصلہ ہے اور جس کی طرف تمام معاملات لوٹیں گے یعنی اللہ تعالیٰ ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: {أَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَاْلأَمْرُ تَبَارَکَ اللّٰہُ رَبُّ الْعَالَمِیْنَo} (الاعراف: ۵۴) ’’یادرکھو اسی کے لیے خاص ہے خالق ہونا اور حاکم ہونا۔ بڑی خوبیوں سے بھرا ہے اللہ رب العالمین۔‘‘ دوسری یہ کہ ان کے اپنے کرتوت سے کوئی مصیبت ان پر آتی ہے۔(ان کے کرتوت کاکھل جانا بھی ان کے لیے ایک مصیبت ہے) تو قسمیں کھانے لگتے ہیں کہ انہوں نے اچھائی اور بھلائی ہی چاہی تھی۔ جیسے آج کچھ لوگ احکام اسلام کو چھوڑتے اور مخالفِ اسلام قوانین کو یہ کہہ کر اپناتے ہیں کہ یہی بھلائی اور زمانے کے حالات کے موافق ہے۔
Flag Counter