اڑانے لگے، دین سے تعلق رکھنے والوں کاچاہے زندہ ہوں یا گزر چکے ہوں استہزاء کرنے لگے۔ اس لیے مناسب ہی نہیں بلکہ لازم ہوجاتا ہے کہ اس سے دامن بچایا جائے اور سفر کے لیے ایسی شرطیں رکھی جائیں جو اس طرح کی ہلاکت خیزیوں میں واقع ہونے کی خواہش کو لگام دے سکیں۔ لہٰذا کافر ملک میں اقامت کی دوبنیادی اور لازمی شرطیں ہیں: شرط اول: قیام کرنے والا اپنی دین داری سے مطمئن ہو۔ اس طرح کہ اس کے پاس علم ، ایمان اور عزم کی ایسی قوت ہو جس کی وجہ سے اس کو اطمینان ہو کہ وہ اپنے دین پر ثابت قدم رہ جائے گا۔ انحراف اور گمراہی سے بچ جائے گا، کافروں سے دشمنی اور ان سے بغض کو اپنے دل میں زندہ رکھے گا اور ان سے دوستی اور محبت کرنے سے دور رہے گا۔کیوں کہ ان سے دوستی اور محبت ایمان کے منافی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: {تَجِدُ قَوْمًا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَادَّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَوْ کَانُوْا آبَائَ ہُمْ اَوْ اَبْنَآئَ ہُمْ اَوْ اِِخْوَانَہُمْ اَوْ عَشِیرَتَہُمْo} (المجادلہ: ۲۲) ’’جولوگ اللہ پراور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں آپ ان کو نہ دیکھیں گے کہ ایسے لوگوں سے دوستی رکھتے ہیں جو اللہ اور اسکے رسول کے برخلاف ہیں گو وہ ان کے باپ یابیٹے یابھائی یاکنبہ ہی کیوں نہ ہوں۔‘‘ اور فرمایا: {یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَہُوْدَ وَالنَّصٰرٰٓی اَوْلِیَآئَ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ وَمَنْ یَّتَوَلَّہُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْہُمْ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَo فَتَرَی الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ یُّسَارِعُوْنَ فِیْہِمْ یَقُوْلُوْنَ نَخْشٰٓی اَنْ تُصِیْبَنَا دَآئِرَۃٌ فَعَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّاْتِیَ بِالْفَتْحِ اَوْ اَمْرٍ مِّنْ عَنْدِہٖ فَیُصْبِحُوْا عَلٰی مَآ اَسَرُّوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ نٰدِمِیْنَo} (المائدہ: ۵۱۔ ۵۲) |