Maktaba Wahhabi

110 - 220
………………… شرح ………………… یعنی دین کے مرتبوں میں سے۔ لغوی طور پر ’’ایمان‘‘ کا معنی ہے تصدیق کرنا۔ اور شرعی طور پر ’’ایمان‘‘: دل سے اعتقاد، زبان سے ادائیگی اور اعضاء کے ذریعہ عمل کرنے کو کہتے ہیں۔ ’’ایمان‘‘ کی ستر سے زیادہ شاخیں۔ یہ زیادتی تین سے لے کر نو تک ممکن ہے۔ ’’شاخ‘‘ کسی چیز کے جزء کو کہتے ہیں۔ یعنی تکلیف کو دور کرنا جیسے پتھر، کانٹا، ردی اشیاء، گندگی اور بدبودار جیسی تکلیف دہ چیزیں۔ ’’حیا‘‘ ایک متأثر ہوجانے والی خوبی ہے جو شرم کی وجہ سے وجود میں آتی ہے اور آدمی کو غیر انسانی حرکات سے روکتی ہے۔ مؤلف رحمہ اللہ کی بات کہ : ’’ایمان کی ستر سے زیادہ شاخیں ہیں‘‘، اور اس بات کہ : ’’ایمان کے چھ ارکان ہیں‘‘ میں موافقت پیدا کرتے ہوئے ہم کہیں گے کہ: ’’ایمان‘‘ جو عقیدہ اور اعتقاد ہے اس کے چھ اصول ہیں جو کہ حدیثِ جبریل علیہ السلام میں یوں مذکور ہیں کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایمان کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: ’’ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں اس کے رسولوں اور یوم آخرت پر ایمان و اعتقاد رکھو اور اچھی بری تقدیر پر ایمان رکھو۔‘‘ (متفق علیہ) اور وہ ’’ایمان‘‘ جو کہ اعمال اور اقسام اعمال کو شامل ہے اس کی ستر سے زیادہ شاخیں ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے نماز کو بھی ’’ایمان‘‘ کا نام دیا ہے، فرمایا کہ: {وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُضِیْعَ إَیْمَانَکَمْ} (البقرہ: ۱۴۳) ’’ایسا نہیں کہ اللہ تمہارا ایمان ضائع کردے۔‘‘ مفسرین کہتے ہیں کہ یہاں ’’ایمان ‘‘ سے مراد بیت المقدس کی طرف رخ کرکے پڑھی ہوئی تمہاری نمازیں ہیں، کیوں کہ صحابہ کرام کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم دئیے جانے سے پہلے بیت المقدس ہی کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرتے تھے۔
Flag Counter