Maktaba Wahhabi

98 - 183
کرتی رہتی تھی وہ منجمد نہیں ہوتی تھی۔ اگر فرد پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا تو کیا تجارتی فورم بھی نہیں کھولے جاسکتے جس میں مضاربت کے شرعی اصولوں کی روشنی میں بینکوں میں جمع رقوم استعمال کی جائیں ،بہت سے اللہ کے بندے ایسے ہیں جو سودی نظام کا حصہ نہیں بننا چاہتے لیکن ان کے سامنے کوئی بدل نہیں ہے،مدارس کے پاس جو روپے جمع ہوتے ہیں وہ بھی منجمد رہتے ہیں ۔اگر مضاربت کاتجربہ چھوٹی سطح پر کیا جائے تو اس سے فائدہ ہوسکتاہے۔اسی میں اساتذہ کی تنخواہوں سے ماہ بہ ماہ وضع کی جانے والی رقم ،پنشن اسکیم میں اصحاب ثروت سے ملنے والا تعاون اور شاگردوں کی طرف سے ملنے والی امداد بھی جمع کی جاسکتی ہے اور اس کو بارآور بنایا جاسکتاہے۔ہمارے ملک میں مضاربت کے کئی ایک تجربے کیے گئے اور وہ ناکام بھی ہوگئے ،کتنے لوگوں کی رقمیں ڈوب گئیں اور وہ خالی ہاتھ ہوگئے،اس تعلق سے کئی ایک کمپنیوں کے تجربات ہمارے سامنے ہیں لیکن مجھے یہ بات بھی معلوم ہے کہ ان کمپنیوں نے لوگوں کو لبھانے کے لیے غیرفطری کام کیے اور آمدنی سے زیادہ منافع دینے کی کوشش کی،نتیجہ یہ ہوا کہ وقت سے پہلے یہ کمپنیاں ٹوٹ گئیں۔تجارت کے فن سے واقف لوگ ہی اس قسم کا کاروبار چلاسکتے ہیں اور کامرس میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے ہی اسے دیکھ سکتے ہیں ۔مجھے اس تجویز پر اصرار نہیں ہے،ویسے اسلام نے مضاربت کا جو راستہ کھولاتھا ہم نے عملاً اسے بند کر رکھا ہے۔امام بخاری اورامام ابن تیمیہ رحمھما اللہ کی سیرت سے یہ کہیں نہیں معلوم ہوتا کہ انہوں نے کوئی تجارت کی تھی یا کسی کی ملازمت قبول کی تھی ۔گھر میں جو سرمایہ موجود تھا وہ مضاربت ہی پر لگایاہواتھا اوراسی کی آمدنی سے ان کی گزر بسر ہوتی تھی۔آج کوئی استاذ کچھ روپے اپنے اخراجات سے اگر بچاتابھی ہے تواس کے بڑھنے کا کوئی واضح اور سود سے محفوظ راستہ نہیں ہے۔اگر مضاربت کا مسئلہ کسی طرح ہم حل کرسکیں تو یہ ملت پر احسان ہوگا اور شاید ہم مدارس و جامعات کے ضعیف العمر اساتذہ کو پنشن دینے اوربیمار اساتذہ کا علاج کرانے کے قابل ہوسکیں ،عملی اقدام سے پہلے ذہن سازی کی ضرورت ہوتی ہے ،اگر ہمیں کسی چیز کی فکر لاحق ہوجائے تواس کی کوئی نہ کوئی عملی شکل ضرور متعین ہوجائے گی۔امید ہے کہ اہل فکر ودانش وقت کے اس اہم سنگین مسئلے پر غور کریں گے اور اپنے خیالات وتجاویز سے مستفید ہونے کا موقع فراہم کریں گے۔ بہ شکریہ نوائے اسلام دہلی، اکتوبر2015ء
Flag Counter