Maktaba Wahhabi

42 - 183
ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انکار حدیث کا فتنہ سرے سے موجود ہی نہیں ہے اور فتنہ انکارِ حدیث کا جو شورو غوغا ہے وہ یوں ہی ہے ۔ حقیقت میں کوئی بھی منکرِ حدیث نہیں ہے۔ انکارِ حدیث کا مطلب اور اس کا مصداق: لیکن کیا واقعتاً ایسا ہی ہے ۔ نہیں ہر گز نہیں ۔ انکارِ حدیث کا فتنہ اپنی پوری حشر سامانی کے ساتھ نہ صرف موجود ہے بلکہ روز افزوں اور وسعت پذیر ہے۔ اس لئے ہمیں غور کرنا ہوگا کہ انکارِ حدیث کا مطلب کیا ہے ؟ اور اسکا مصداق کون یا کون کون ہیں؟ گمراہ فرقوں اور ان کی گمراہیوں کا علیٰ وجہ البصیرت جائزہ لینے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مسلّمہ اصلاحات کو ان کے مسلّمہ مفہوم کے مطابق ماننے کے بجائے ، ان کے مفہوم میں تبدیلی کرنا اور اپنے ذہنی تحفظات یا خود ساختہ نظریات اور باطل مزعومات کی روشنی میں ان کا نیا مفہوم گھڑنا ، یہ ان کی گمراہی کی اصل بنیاد ہے اور اس فن کا رانہ چابکدستی سے وہ بہت سے لوگوں کو یا کم از کم اپنے حلقہ ارادت کو یہ باور کروا دیتے ہیں کہ وہ ان چیزوں (مسلمات) کے منکر نہیں ہیں جو ان اصطلاحات کا متبادر مفہوم ہے، یا اگر وہ ان کے منکر ہیں تو اس کی وجہ وہ احادیث ہیں جو قرآن کے خلاف ہیں ۔جیسے پرویزی گروہ ہے جس نے صلاۃ و زکوٰۃ کے مسلّمہ مفہوم کو بدل کر ان کا ایک نیا مفہوم گھڑا جس کی بنیاد حدیث کے بجائے سنت پر ہے۔ ذرا ملاحظہ فرمائیں ، غلام احمد پرویز لکھتا ہے : ’’الصلوٰۃ ، صراطِ مستقیم پر چلنے کا نام ہے ، وہ صراط جس کے بارے میں فرمایا کہ انّ ربّی علیٰ صراطٍ مّستقیم ـ’’ تیرے نشونما دینے
Flag Counter