﴿ مَا نَعْبُدُھُمْ اِِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَآ اِِلَی اللّٰہِ زُلْفٰی﴾ [الزمر: ۳]
[(وہ کہتے ہیں ) ہم انکی عبادت نہیں کرتے مگر اس لیے کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کر دیں ، اچھی طرح قریب کرنا]
دوسری آیت میں فرمایا ہے:
﴿ وَ یَقُوْلُوْنَ ھٰٓؤُلَآئِ شُفَعَآؤُنَا عِنْدَ اللّٰہِ﴾ [یونس: ۱۸]
[اور کہتے ہیں یہ لوگ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں ]
پھر ان میں سے پہلی آیت کو اس جملے پر ختم فرمایا ہے:
﴿ اِِنَّ اللّٰہَ لاَ یَھْدِیْ مَنْ ھُوَ کٰذِبٌ کَفَّارٌ ﴾ [الزمر: ۳]
[بے شک اللہ اس شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو جھوٹا ہو بہت نا شکرا ہو]
دوسری آیت کو اس جملے پر تمام کیا ہے:
﴿ سُبْحٰنَہٗ وَ تَعٰلٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ﴾ [یونس: ۱۸، نحل: ۱، روم: ۴۰]
[وہ پاک ہے اور بلند ہے اس سے جو وہ شریک ٹھہراتے ہیں ]
اگر لوگ خیال کریں کہ وہ ہدایت پر ہیں ، گمراہی میں مبتلا نہیں ہیں تو ان کا یہ دعویٰ بالکل غلط ہے۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
﴿ قُلْ اَمَرَ رَبِّیْ بِالْقِسْطِ وَ اَقِیْمُوْا وُجُوْھَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَّ ادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ کَمَا بَدَاَکُمْ تَعُوْدُوْنَ *فَرِیْقًا ھَدٰی وَ فَرِیْقًا حَقَّ عَلَیْھِمُ الضَّلٰلَۃُ اِنَّھُمُ اتَّخَذُوا الشَّیٰطِیْنَ اَوْلِیَآئَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَ یَحْسَبُوْنَ اَنَّھُمْ مُّھْتَدُوْن﴾ [الأعراف: ۲۹۔۳۰]
[کہہ دے میرے رب نے انصاف کا حکم دیا اور اپنے رخ ہر نماز کے وقت سیدھے رکھو اور اس کے لیے دین کو خالص کرتے ہوئے اس کو پکارو۔ جس طرح اس نے تمھاری ابتدا کی، اسی طرح تم دوبارہ پیدا ہو گے۔ ایک گروہ کو اس نے ہدایت دی اور ایک گروہ، ان پر گمراہی ثابت ہو چکی، بے شک انھوں نے اللہ کو چھوڑ کر شیطانوں کو دوست بنا لیا اور سمجھتے ہیں کہ یقینا وہ ہدایت پانے والے ہیں ]
|