[اور اس سے بڑھ کر کون گمراہ ہے جو اللہ کے سوا انھیں پکارتا ہے جو قیامت کے دن تک اس کی دعا قبول نہیں کریں گے اور وہ ان کے پکارنے سے بے خبر ہیں ۔ اور جب سب لوگ اکٹھے کیے جائیں گے تو وہ ان کے دشمن ہوں گے اور ان کی عبادت سے منکر ہوں گے]
ایک اور مقام پر فرمایا:
﴿ وَ لَا تَدْعُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لَا یَنْفَعُکَ وَ لَا یَضُرُّکَ فَاِنْ فَعَلْتَ فَاِنَّکَ اِذًا مِّنَ الظّٰلِمِیْنَ﴾ [یونس: ۱۰۶]
[اور اللہ کو چھوڑ کر اس چیز کو مت پکار جو نہ تجھے نفع دے اور نہ تجھے نقصان پہنچائے، پھر اگر تو نے ایسا کیا تو یقینا تو اس وقت ظالموں سے ہو گا]
مزید ایک جگہ ارشاد ہے:
﴿ وَمَنْ یَّدْعُ مَعَ اللّٰہِ اِِلٰھًا اٰخَرَ لاَ بُرْھَانَ لَہٗ بِہٖ فَاِِنَّمَا حِسَابُہُ عِنْدَ رَبِّہٖ اِِنَّہُ لاَ یُفْلِحُ الْکٰفِرُوْنَ﴾ [المؤمنون: ۱۱۷]
[اور جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو پکارے، جس کی کوئی دلیل اس کے پاس نہیں تو اس کا حساب صرف اس کے رب کے پاس ہے۔ بے شک حقیقت یہ ہے کہ کافر فلاح نہیں پائیں گے]
ایک جگہ فرمایا:
﴿ فَاِذَا رَکِبُوْا فِی الْفُلْکِ دَعَوُا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ فَلَمَّا نَجّٰھُمْ اِلَی الْبَرِّ اِذَا ھُمْ یُشْرِکُوْنَ﴾ [العنکبوت: ۶۵]
[پھر جب وہ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ کو پکارتے ہیں ، اس حال میں کہ اسی کے لیے عبادت کو خالص کرنے والے ہوتے ہیں ، پھر جب وہ انھیں خشکی کی طرف نجات دے دیتا ہے تو اچانک وہ شریک بنا رہے ہوتے ہیں ]
مزید فرمایا ہے: غیر اللہ کو پکارنے والا گمراہ، ظالم، مشرک اور کافر ہوتا ہے۔
اگر کوئی کہے کہ اس دعا سے داعی کی مراد اللہ کا تقرب حاصل کرنا اور اس کی طرف شفاعت کروانا ہوتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ بعینہ مشرکین کی یہی مراد تھی، جس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
|