وَ مَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِیَعْبُدُوْٓا اِلٰھًا وَّاحِدًا لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ سُبْحٰنَہٗ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ﴾
[التوبۃ: ۳۱]
[انھوں نے اپنے عالموں اور اپنے درویشوں کو اللہ کے سوا رب بنا لیا اور مسیح ابن مریم کو بھی، حالانکہ انھیں اس کے سوا حکم نہیں دیا گیا تھا کہ ایک معبود کی عبادت کریں ، کوئی معبود نہیں مگر وہی، وہ اس سے پاک ہے جو وہ شریک بناتے ہیں ]
اس آیت کی زد میں علما، اولیا اور انبیا سب آ گئے۔
اس آیت کی تفسیر میں عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کی معصیت میں ان احبار و رہبان کی عبادت یہی اطاعت تھی۔[1] ابو العالیہ کہتے ہیں کہ وہ کہا کرتے تھے:
’’لا نسبق علماء نا، ما حللوہ حلال، و ما حرموہ حرام‘‘
[ ہم اپنے علما سے آگے نہیں بڑھتے ہیں ۔ جس چیز کو وہ حلال قرار دیں وہی حلال اور جسے وہ حرام قرار دیں وہ حرام ہے]
اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ وَ اِنْ اَطَعْتُمُوْھُمْ اِنَّکُمْ لَمُشْرِکُوْنَ﴾ [الأنعام: ۱۲۱]
[اور اگر تم نے ان کا کہنا مان لیا تو بلا شبہہ تم یقینا مشرک ہو]
اس آیت سے تقلید کا شرک ہونا ثابت ہوتا ہے، وللّٰہ الحمد۔
مفسرین نے کہا ہے کہ اہلِ کتاب کے علما نے ان کے لیے مردار کو حلال قرار دیا تھا اور اس کی دلیل کے طور پر وہ کہتے تھے کہ اللہ کا مارا ہوا حرام نہیں ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ قُلْ یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآئٍ بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰہَ وَ لَا نُشْرِکَ بِہٖ شَیْئًا وَّ لَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ﴾
[آل عمران: ۶۴]
[کہہ دے اے اہلِ کتاب! آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے درمیان اور تمھارے درمیان برابر ہے، یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں اور ہم میں سے کوئی کسی کو اللہ کے سوا رب نہ بنائے]
|