﴿وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِزْرَ أُخْرَی وَإِن تَدْعُ مُثْقَلَۃٌ إِلَی حِمْلِہَا لَا یُحْمَلْ مِنْہُ شَیْء ٌ وَلَوْ کَانَ ذَا قُرْبَی إِنَّمَا تُنذِرُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُم بِالغَیْبِ وَأَقَامُوا الصَّلَاۃَ وَمَن تَزَکَّی فَإِنَّمَا یَتَزَکَّی لِنَفْسِہِ وَإِلَی اللَّہِ الْمَصِیْرُ﴾ (فاطر:۱۸) ’’اور کوئی بوجھ اٹھانے والی (جان) کسی دوسری کا بوجھ نہیں اٹھائے گی، اور اگر کوئی بوجھ سے لدی ہوئی (جان) اپنے بوجھ کی طرف بلائے گی تو اس میں سے کچھ بھی نہ اٹھایا جائے گا۔ خواہ وہ قرابت دار ہو، بے شک تو صرف ان کو ڈراتا ہے جو دیکھے بغیر اپنے ربّ سے ڈرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو پاک ہوتا ہے تو وہ صرف اپنے لیے پاک ہوتا ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔‘‘ اس آیتِ مبارکہ میں پہلے مضمون کی ایک اور نوعیت سے وضاحت ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری عبادت واطاعت کا محتاج نہیں،تمھاری عبادت کیا تمھیں نیست ونابود کر دے اسے پھر بھی کوئی پروا و پچھتاوا نہیں۔تو حضرت صالح علیہ السلام کی قوم کی ہلاکت کے حوالے سے فرمایا: اس بستی کو برابر کر دیا اور وہ اس (سزا) کے انجام سے نہیں ڈرتا۔‘‘[1] اس لیے تم نافرمانی کرویا گمراہی کی راہ اختیار کرو اس کا بوجھ تمہیں اٹھانا پڑے گا۔ کوئی اور تمہارا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ کفار تو اہلِ ایمان کو بد راہ کرنے کے لیے یہ جھانسا بھی دیتے تھے کہ اگر ہماری تابع داری میں تمہیں کوئی خطرہ ہے اور اسے تم گناہ |