Maktaba Wahhabi

435 - 495
ائمہ کرا م میں سے صرف امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے اس کی حر مت منقو ل ہے ،البتہ امام ابو یو سف رحمۃ اللہ علیہ اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے استا د سے اختلا ف کر تے ہو ئے اس کی حلت کا فتو یٰ دیا ہے ۔(کنز الدقائق:ص229مترجم فا ر سی ) محدث ثنا ء اللہ رحمۃ اللہ علیہ پا نی پتی حنفی لکھتے ہیں :"کہ گھو ڑا حلا ل ہے۔‘‘ (ما لا بد منہ :ص110) مو لا نا اشر ف علی تھا نو ی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :کہ گھو ڑو ں کا کھا نا جا ئز ہے بہتر نہیں ہے ۔‘‘ (بہشتی زیو ر:ج3ص56) کتب فقہ میں یہ بھی لکھا ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی وفا ت سے تین دن پہلے گھو ڑے کی حر مت سے رجو ع کر لیا تھا۔(در مختا ر )مختصر یہ ہے کہ گھو ڑا حلا ل ہے اگر طبیعت نہ چا ہے تو اس کا کھا نا ضروری نہیں لیکن حلال کہنے والو ں پر طعن و تشنیع درست نہیں ہے۔ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے صا ف اعلا ن کیا ہے کہ ہم گھو ڑے کے گو شت کے متعلق کو ئی حر ج محسو س نہیں کر تے ۔(کتا ب الآثا ر :ص180) اس بنا پر احنا ف کو اس مسئلہ کے متعلق سختی نہیں کر نی چا ہیے ۔(واللہ اعلم) سوال۔میں پیدا ئشی طو ر پر ایک ہیجڑا ہو ں ،میر ی شکل و صورت چا ل ڈھال اور جسما نی سا خت و پر واخت انتہا ئی طو ر پر لڑکیو ں سے مشا بہہ ہے، میرا نا م لڑکیو ں وا لا ہے اور میں لبا س بھی لڑکیو ں والا پہنتا ہو ں، میرے سر کے با ل بھی لڑکیو ں کی طرح لمبے اور خو ب صورت ہیں ، ایک آوا ز ہے جو لڑکیو ں سے قدر ے بھا ر ی ہے مجھے دیکھنے والا لڑکی ہی خیا ل کر تا ہے میر ے سا تھ یہ حا د ثہ ہوا کہ میرا گرو عدا لتی کا رر وا ئی کے ذر یعے مجھے میر ے والد ین سے چھین کر لے آیا تھا ،میں بچپن سے اب تک گرو کی صحبت میں اور اس کی زیر تر بیت رہا ہو ں، اس لیے نا چ گا نے کا پیشہ اپنانا فطر تی با ت تھی، تا ہم میں شرو ع ہی سے اس کا روبا ر کو نفر ت کی نگا ہ سے دیکھتا تھا، اب جب کہ میرا گرو مر چکا ہے اور میں آزاد ہو ں، میر ی عمر بیتس سا ل کے قریب ہے لیکن میں اپنے گرو کے مکان میں دوسرے ہیجڑے سا تھیو ں کے سا تھ رہتا ہو ں، مجھے اس پیشہ سے جنون کی حد تک نفر ت ہو چکی ہے، میں نے عزم کر لیا ہے کہ اس پیشہ اور ہیجڑوں سے کنا رہ کش ہو جا ؤ ں اور اپنی تو بہ کا آغا ز حج بیت اللہ کی سعا دت سے کر نا چا ہتا ہو ں، میر ی الجھن یہ ہے کہ میں مر دو ں کی طرح حج کرو ں یا عورتوں کی طرح؟ کتا ب و سنت کے مطا بق میر ی الجھن حل کر یں، مجھے اس با ت کا علم ہے کہ اگر میں مر دو ں کی طرح حج کرو ں تو مجھے احرا م باندھنا ہو گا اور مجھے بدن کا کچھ حصہ ننگا رکھنا ہو گا ،اس کے علا وہ سر کے با ل بھی منڈوانا ہو ں گے لیکن سچی با ت ہے کہ میر ے لیے یہ امر بہت مشکل ہو گا جس سے مجھے خو ف آتا ہے بلکہ تصور کر کے رو نگٹے کھڑے ہو جا تے ہیں، جبکہ عورتو ں کی طرح حج کر نے میں مجھے آسا نی ہے کیو ں کہ میں نے اب تک عمرکا تمام حصہ عورتو ں کی طرح گزا را ہے اور جنسی طور پر مردانہ خو ا ہش کبھی بھی میرے دل میں نہیں ابھری۔ بعض علماء ء سے دریا فت کر نے سے الجھن کا شکا ر ہو چکا ہوں کہ کیا کرو ں اور کیا نہ کرو ں، مجھے کسی نے کہا ہے کہ اگر تم مسئلہ کا صحیح حل چا ہتے ہو تو کسی وہا بی عا لم کی طرف رجو ع کر و، اس لیے میں نے آپ کی طرف رجو ع کیا ہے، مجھے جلدی اس کا جوا ب دیا جا ئے۔(ایک سا ئل معرفت محمد اسلا م طا ہر محمدی لا ہو ر کینٹ خریداری نمبر 1274) جواب۔اس قدر طو یل سوا ل کے با و جو د بعض امو ر دریا فت طلب ہیں تا ہم جوا ب پیش خد مت ہے، اس سلسلہ میں چند با تیں قا بل ملا حظہ ہیں:
Flag Counter