Maktaba Wahhabi

432 - 495
سے پیدا ہو ا ہو ۔ارشا د با ر ی تعا لیٰ ہے :"اور اپنی زینت کو کسی کے سا منے ظا ہر نہ کریں سوائے اپنے خا و ند وں ---یا اپنے خا و ند کے لڑکو ں کے ---- (24/النو ر :31) یہی وجہ ہے کہ بیٹا اپنے باپ کی منکو حہ سے نکا ح نہیں کر سکتا لیکن دوسری بیو ی کی بہن (سا لی ) اور اس کی ما ں (خو ش دا من) سے ذکر کردہ لڑکے کا کو ئی دودھ یا سسرا لی رشتہ نہیں ہے، لہذا انہیں اس سے پردہ کرنا ہو گا، پردہ نہ کر نے کی رعا یت صرف دوسری بیو ی کی بہنیں اور ما ں اس کے لیے غیر محرم کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ سوال۔غریب آباد جہا نیا ں سے حا فظ محمد شفیع لکھتےہیں کہ ایک لڑکی کی اس کے بہنو ئی نے پرو رش کی ہے اور اس کی شا دی کا فر یضہ بھی اپنے ہاتھو ں سر انجام دیا، اب کیا وہ اپنے بہنو ئی سے پردہ کر ے گی جبکہ اس کی بہن بہنو ئی کے نکا ح میں مو جو د ہے ---؟ جواب۔ پردے کے متعلق ارشا د با ر ی تعا لیٰ ہے :" کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیو یو ں سے اگر تمہیں کچھ ما نگنا ہے تو پر دے کے پیچھے سے مانگا کرو ۔ (33/الاحزاب :53) روایا ت میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس آیت کے نزو ل سے پہلے متعدد مر تبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کر چکے تھے کہ آپ کے ہاں بھلے اور برے لو گ آتے ہیں ،کا ش !آپ اپنی ازواج مطہرا ت کو پر دہ کر نے کا حکم دیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چو نکہ قا نو ن سا زی میں خود مختا ر نہ تھے اس لیے آپ اللہ کی طرف سے اشارہ کے منتظر رہے، آخر کا ر یہ حکم آگیا کہ محرم مردو ں کے علا وہ کو ئی مرد آپ کے گھر نہ آئے اور جس غیر محر م کو خو اتین سے کو ئی کا م ہو، وہ پر دے کے پیچھے سے با ت کر ے، ا گلی آیت میں ان محرم رشتہ دارو ں کی فہرست ہے جن سے پردہ ضروری نہیں ہے ، چنانچہ فر ما یا :" ازواج مطہرا ت کے لیے اس میں کو ئی مضا ئقہ نہیں کہ ان کے با پ، ان کے بیٹے، ان کے بھا ئی ،ان کے بھتیجے، ان کے بھا نجے ،ان کے میل جو ل کی عورتیں اور ان کے مملو ک گھرو ں میں آئیں ۔‘‘ (33/الاحزا ب :55) اس فہرست میں بہنو ئی کا ذکر نہیں ہے، لہذا اس سے پردہ کر نا ضروری ہے ، اس آیت میں چچا اور ماموں کا ذکر اس لیے نہیں کیا گیا کہ وہ عورت کے لیے بمنزلہ والدین ہیں یا پھر ان کے ذکر کو اس لیے سا قط کر دیا گیا ہے کہ بھا نجو ں اور بھتیجوں کا ذکر آجا نے کے بعد ان کے ذکر کی حا جت نہیں ہے ،کیوں کہ بھانجے اور بھتیجے سے پردہ نہ ہو نے کی جو وجہ ہے وہی چچا اور مامو ں سے پردہ نہ ہو نے کی وجہ بھی ہے، بہر حا ل بہنو ئی ان محر م رشتہ دارو ں میں شا مل نہیں ہے جس سے پردہ نہیں کیا جا سکتا بلکہ پردہ کے لیے ضا بطہ یہ ہے کہ جس عورت کا نکا ح کسی وقت بھی ہو سکتا ہو، اس سے پر دہ کر نا ضروری ہے، بہنو ئی اپنی سالی سے نکا ح کر سکتا ہے بشر طیکہ اس کی بیو ی فو ت ہو جا ئے یا اسے طلا ق مل جا ئے ۔پر دے کے متعلق یہ ابتدا ئی احکا م تھے۔ سورہ نو ر میں احکا م ستر بیان کیے گئے ہیں وہا ں بھی جن لو گو ں کو مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے ان میں بہنو ئی شا مل نہیں ہے۔ ارشا د با ری تعا لیٰ ہے کہ وہ (عورتیں ) اپنا بنا ؤ سنگا ر نہ ظا ہر کریں مگر ان لو گو ں کے سا منے (شو ہرو ں کے بھا ئی، اپنے بیٹے، بھا ئی شوہرو ں کے بیٹے، بھا ئیو ں کے بیٹے، بہنو ں کے بیٹے ---)(24/النو ر :31) صورت مسئولہ میں اگر چہ بہنو ئی نے اپنی سا لی کی پرورش کی اور اس کی شا دی کا فریضہ بھی اپنے ہا تھو ں سے سر انجا م دیا ہے تا ہم وہ اس کے لیے محر م نہیں ہے جس سے پردہ اٹھا دیا گیا ہو بلکہ وہ اس کے لیے غیر محرم ہے جس سے پردہ ضروری ہے ۔
Flag Counter