Maktaba Wahhabi

431 - 495
ہے، جیسا کہ ارشا د باری تعا لیٰ ہے کہ :" عورتو ں کو ان کے حق مہر خو شی سے دیا کرو ۔ ہاں اگر وہ اپنی خو شی سے انہیں چھو ڑ دیں تو اسے ذو ق و شو ق سے کھا لو۔ (4سورۃ النسا ء :4) اس آیت میں اللہ تعا لیٰ نے مہر کے متعلق عو رت کا حق ملکیت ثا بت کیا ہے، اسی طرح وراثت وغیرہ کے کئی ایک مسا ئل ہیں جن سے معلو م ہوتا ہے کہ بیوی کو جا ئیداد بنانے کا شر عی حق ہے بلکہ بعض احا دیث سے تو یہ بھی معلو م ہو تا ہے کہ بعض ما لدا ر صحا بیا ت اپنے شو ہرو ں کو زکوۃ بھی دیتی تھی، چنانچہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے بلا ل رضی اللہ عنہ کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریا فت کیا کہ اگر میں اپنے خا وند حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ پر ما ل زکو ۃ صرف کرو ں تو کیا یہ جا ئز ہے ؟ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :" ہا ں !اس کے لیے دوا جر ہیں ایک رشتہ سے حسن سلو ک کر نے کا اور دوسرا صدقہ کر نے کا۔ " (صحیح بخا ری :کتا ب الزکو ۃ، با ب الزکو ۃ علی الزوج ) اسی طرح حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کے متعلق روا یا ت میں آیا ہے کہ وہ خاوند کے بچو ں پر مال زکو ۃ خر چ کر تی تھیں ۔(صحیح بخا ر ی حو الہ مذکورہ ) اندر یں حا لا ت بیو ی کو شر یعت نے یہ حق دیا ہے اگر وہ اپنی تنخو اہ الگ رکھنا چا ہتی ہے تو اسے یہ حق پہنچتا ہے خا و ند کو چا ہیے کہ وہ اس سلسلہ میں زیا دتی کا مرتکب نہ ہو، البتہ خا و ند کو یہ حق بھی شر یعت نے دیا ہے کہ بیو ی کی ملا ز مت اگر حقو ق کی اد ائیگی میں رکا و ٹ کا با عث ہے تو بیوی کو ملا ز مت چھو ڑ نے پر مجبو ر کر سکتا ہے اور بیو ی کے لیے اس کے حکم کی تعمیل ضروری ہے ۔(واللہ اعلم با لصواب ) سوال۔لو دھرا ں سے قا ری عمر فا رو ق ثا قب (خریداری نمبر 5188) لکھتے ہیں کہ میں نے دوسری شا دی کی ہے، میر ی پہلی بیو ی کا بیٹا دوسری بیو ی نے پالا لیکن دودھ نہیں پلا یا ،میرا بیٹا گو یا اس کا بیٹا ہو ا ، ایسے حا لا ت میں میر ی سا لی یا خو ش دا من اس بیٹے سے پر دہ کر ےگی یا نہیں ؟ جوا ب۔ سوال میں میرا بیٹا گو یا اس کا بیٹا ہو ا، بڑا خطرنا ک جملہ ہے کیوں کہ اللہ تعا لیٰ نے قرآن مجید میں صرف دو عورتو ں کو ما ں کا مقا م دیا ہے ،چنا نچہ ایک وہ ما ں ہے جس نے اسے جنم دیا ہے، ارشا د با ر ی تعالیٰ ہے :" ان کی ما ئیں تو وہی ہیں جن کے بطن سے پیدا ہو ئے ہیں ۔‘‘ (58المجادلہ :2) دوسری وہ ما ں ہے جس نے جنم تو نہیں دیا لیکن بچے کو ابتدا ئی دو سا ل کی مدت میں کم از کم پا نچ مر تبہ دودھ پلا یا ہے، اس کے متعلق ارشا د باری تعا لیٰ ہے : ’’اور تمہا ری وہ ما ئیں بھی حرا م ہیں جنہو ں نے دودھ پلا یا ہو ۔‘‘ (4/النسا ء :23) پہلی ما ں کو حقیقی اور دوسری کو رضا عی کہا جا تا ہے، اس کے علا وہ کسی تیسری عورت کو ما ں نہیں کہا جاتا ، اور نہ ہی اس کی طرف بیٹا ہو نے کی نسبت کی جا سکتی ہے، دوسری بیو ی نے صر ف بچے کی پر ورش کی ہے، پرورش کر نے سے وہ بیٹا نہیں بن جا ئے گا، البتہ اس سے پر دہ نہ کر نے کی دیگر وجو ہا ت ہیں ،ان میں پرورش کر نا یا نہ کر نا اس کو کو ئی دخل نہیں ہے۔ اللہ تعا لیٰ نے عو رتو ں کو جن محا رم کے سا منے اظہا ر زینت کی اجازت دی ہے ان میں سے خا و ند کا وہ بیٹا بھی ہے جو اس کے بطن سے نہ ہو بلکہ کسی دوسر ی بیو ی
Flag Counter