Maktaba Wahhabi

27 - 495
اس میں تو حید، ایما ن ،امو ر غیب، نبوت و رسا لت ، قضا و قد ر، احکا م و اخبا ر آجا تے ہیں ،اس کے علا وہ اللہ کے لئے کسی سے محبت کرنا، دشمنی رکھنا، صحا بہ کرا م رضی اللہ عنہم کا احترا م بھی عقیدہ کا حصہ ہے۔ محدثین عظا م نے اس مو ضو ع کو نکھا ر نے کے لئے کئی ایک نا م استعمال کیے ہیں ۔مثلاً (1) تو حید:امام بخا ری ،ابن مندہ اور امام ابن خزیمہ کی کتا ب التوحید میں اسی مو ضو ع کو بیا ن کیا گیا ہے ۔ (2)الا یمان : حا فظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تا لیف کتا ب الایمان میں عقیدہ سے متعلق مبا حث بیا ن کئے ہیں ۔ (3)السنۃ :محدث ابن ابی عا صم رحمۃ اللہ علیہ نے کتا ب السنۃ میں عقیدہ کے حقائق سے بحث کی ہے ۔ ان کے علاوہ الشر یعہ اور اصو ل الدین کے نا م سے بھی اسے مو سو م کیا جا تا ہے ۔ سوال ۔ملتا ن سےا کرا م اللہ پو چھتے ہیں کہ کیا یہ صحیح ہے کہ عر ش پر کلمہ طیبہ لکھا ہو ا ہے اگر کسی حد یث میں ہے تو حو الہ دیں ۔ جوا ب ۔ عر ش پر کلمہ طیبہ کا ذکر ایک طو یل حدیث میں آیا ہے کہ جب حضرت آدم علیہ السلام نے غلطی کا ارتکا ب کیا تو اللہ تعا لیٰ سے با یں الفاظ دعا کی :’’ اے اللہ ! میں تجھ سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے سوال کرتا ہو ں، اللہ تعا لیٰ نے فر ما یا : میں نے تو ابھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا نہیں کیا تو نے کیسے اس کا نا م لے لیا؟ اس پر حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا کہ میں نے تیرے عرش پر’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ‘‘ لکھا دیکھا ہے ۔ ‘‘(مستدرک حا کم : ج 2،ص 615) پھر امام حا کم رحمۃ اللہ علیہ نے اس پر بایں الفا ظ تبصرہ کیا ہے کہ اس کی سند صحیح ہے اور یہ پہلی روا یت ہے جو اس کتا ب میں عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم کے حوالے سے درج کی ہے، اس تبصرہ کے متعلق علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : بلکہ یہ روا یت خودسا ختہ اور بنا وٹی ہے، عبدالرحمٰن راوی وا ہی تبا ہی مچا نے وا لا ہے، اس کے علاوہ عبد اللہ بن مسلمہ الفہری کے متعلق بھی میں نہیں جا نتا کہ وہ کو ن ہے جس پر اس روا یت کا دارومدا ر ہے : بہرحا ل یہ روا یت مو ضو ع ہے ۔ علا مہ البا نی مرحوم نے بھی اسے موضو ع لکھا ہے ۔ تفصیل کے لئے دیکھئے ۔(الاحا دیث الضعیفہ والمو ضو عہ : 1/38) واللہ اعلم ۔ سوال۔ تحصیل شکر گڑ ھ سے ڈا کٹر ناصر شکیل با بر سوال کر تے ہیں کہ کیا ہمیں اپنے گنا ہوں کی اللہ سے معا فی ما نگتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا واسطہ دینا چا ہئے --؟ جوا ب۔ وسیلہ اس سبب کو کہتے ہیں جو مطلو ب تک پہنچا ئے، وسیلہ کی دو اقسا م ہیں : (1)وسیلہ تکو ینی : اس سے مرا د وہ طبعی سبب ہے جو اپنی فطرت کے اعتبا ر سے مقصود تک پہنچا ئے ، مثلاً:پا نی انسا ن کو سیرا ب کرنے کا وسیلہ ہے، اسی طرح سواری ایک جگہ سے دوسر ی منتقل کر نے کا وسیلہ ہے ، یہ قسم مؤمن اور مشرک کے ما بین مشترک ہے۔ (2) وسیلہ شرعی : اس سے مرا د وہ شرعی سبب ہے جو اس طر یقہ کے مطا بق منزل مقصود تک پہنچا ئے جسے اللہ تعا لیٰ نے اپنی کتاب میں یا اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے ذریعے سے مقرر فر مایا ہو ۔ یہ وسیلہ صرف اہل ایمان کے ساتھ خا ص ہے، جیسا کہ صلہ رحمی ، درازیٔ عمر اوروسعت رزق کا وسیلہ ہے وغیرہ۔
Flag Counter