Maktaba Wahhabi

227 - 495
کر دہ تحقیق سے متفق ہو ۔(واللہ اعلم با لصوا ب ) سوال۔ ایک آدمی رمضا ن کے روزے نہیں رکھ سکتا وہ کیا کر ے ۔(حاجی عبد الر حیم پنڈی گھیپ خرید اری نمبر 1497) جو اب ۔اگر کو ئی بیما ری یا بڑھا پے کی وجہ سے روزے نہیں رکھ سکتا تو اس کی دو صورتیں ہیں اگر آیندہ تند رست ہو نے کی امید نہ ہو تو قضا کے بجا ئے وہ فد یہ ادا کر ے۔ ارشا د با ر ی تعا لیٰ ہے :’’اور جو لو گ رو زہ کی طا قت نہیں رکھتے ، وہ فد یہ کے طو ر پر ایک مسکین کو کھا نا کھلا ئیں ۔‘‘ (2/البقرۃ :184) اگر کو ئی اتنا بو ڑا ھا ہو گیا ہو کہ روزہ رکھنے کی ہمت نہیں رہی تو وہ بھی فدیہ دے جیسا کہ حضرت ابن عبا س رضی اللہ عنہما کا فتو ی ہے فر ما تے ہیں کہ بہت بو ڑھے کے لیے رخصت ہے کہ وہ خو د رکھنے کے بجا ئے ہردن کسی ایک مسکین کو دو وقت کا کھا نا دے دے اور اس پر روزہ کی قضا نہیں ہے ۔(مستدرک حا کم : ج 1ص 44) اگر بیما ری سے تند رست ہو نے کی امید ہے تو اسے چا ہیے کہ بعد میں فوت شدہ روزوں کو دوبا رہ رکھے ۔ سوال۔ ایک آدمی رمضا ن المبا رک میں بلا عذر شر عی بے روزہ رہتا ہے جب کہ اس کی بیو ی پا بند ی سے روزے رکھتی ہے، خا و ند بیو ی سے اپنی خو اہش کا اظہا ر کر تا ہے ، بیو ی کے با ر با ر انکا ر کر نے کے با و جو د با ز نہیں آتا ،اب عورت مجبو ر ہے اس کا روزہ ٹو ٹنے پر اسے گنا ہ ہو گا یا نہیں، نیز خا و ند کا کر دار شر یعت کی نظر میں کیسا ہے ؟ کیا اس پر کو ئی حد یا تعز یر لگا ئی جا سکتی ہے ،کتا ب و سنت کی رو شنی میں جوا ب دیں ۔ (محمد افضل -----ڈسکہ ) جو اب ۔واضح رہے کہ گھر میں رہتے ہو ئے رمضا ن ا لمبا رک میں ہر عاقل و با لغ کے لیے روزہ رکھنا فرض ہے بشر طیکہ وہ تندرست ہو، بلاوجہ روزہ تر ک کر نا بہت سنگین جرم ہے، حدیث نبو ی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ایسا انسا ن ہر قسم کی خیر و برکت سے محروم کر دیا جا تا ہے اور قیا مت کے دن وہ بڑ ی المنا ک سزا سے دو چا ر ہو گا اور جو انسا ن کسی دوسرے کے روزے کو خرا ب کر نے کا با عث ہے وہ بھی اسی قسم کی سزا کا حقدا ر ہے۔ رمضا ن المبا رک میں روزہ تو ڑ نے کا کفا رہ یا تا وان اس صورت میں پڑتا ہے جب پہلے روزہ رکھا ہو ا ہو پھر اسے خرا ب کر دیا جا ئے ۔صورت مسئو لہ میں خا و ند نے ایک سنگین قسم کی غلطی کا ارتکا ب کیا ہے جو شر عاً قا بل تعز یر ہے لیکن قا بل حد نہیں ہے، اسے اللہ تعا لیٰ سے معا فی ما نگنا چا ہیے ،البتہ بیو ی مجبو ر اور بے بس ہے اس پر کو ئی گنا ہ نہیں ہے، چو نکہ اس کا روزہ ٹو ٹ چکا ہے اس لیے رمضا ن کے لیے اس روزہ کی قضا دینا ہو گی، جب بھی مو قع ملے اپنے خا و ند کے علم میں لا کر روزہ رکھ لے ۔(واللہ اعلم ) سوال۔میرا ایک دوست سعودیہ میں ایک روزہ رکھ کر یکم رمضا ن کو پاکستا ن آیا اب اگر وہ مسلسل روزہ رکھتا رہے تو تیس رمضا ن کو اس کے اکتیس روز ے ہو جا ئیں گے اب اسے کیا کر نا چا ہیے ۔ (عبد الو احد .فیصل آباد ) جوا ب ۔ رمضا ن المبا ر ک کے متعلق شر عی قا عدہ یہ ہے کہ اگر انتیس کو چا ند نظر نہ آئے تو تیس روزے پو رے کیے جا ئیں، اس کے بعد عید کی جائے، صورت مسئو لہ میں متعلقہ شخص کے ہما رے ہا ں انتیس رمضا ن کو تیس روزے ہو جا ئیں گے، اسے مز ید روزہ رکھنے کی ضرورت نہیں بلکہ وہ ہما رے ہا ں تیس تا ریخ کو روزہ نہ رکھے، البتہ احترا م رمضان کے پیش نظر وہ بر سر عا م کھا نے پینے سے اجتنا ب کر ے، اسی طرح اگر کو ئی پا کستا ن سے سعو دیہ جا تا ہے تو اس کے روزے کم ہو ں گے اسے چا ہیے کہ وہا ں لوگوں کے سا تھ
Flag Counter