Maktaba Wahhabi

220 - 495
شوال کے چھ روزے مکرو ہ ہیں، خو اہ مسلسل رکھے جا ئیں یا متفرق طور پر۔البتہ ا مام یو سف رحمۃ اللہ علیہ مسلسل رکھنے کو مکروہ سمجھتے ہیں ، جب کہ متفرق طور پر رکھنے کو جا ئز کہتے ہیں لیکن متا خرین احنا ف نے ان دونو ں حضرات سے اتفا ق نہیں کیا بلکہ ان کے نز دیک یہ چھ روزے رکھنے میں کو ئی حرج نہیں ہے اور صحیح مذہب بھی یہی ہے کہ ان روزوں کے رکھنے میں کو ئی مضا ئقہ نہیں۔(فتا و ی عا لمگیری:1/280) مختصر یہ ہے کہ ما ہ شوال کے چھ روزے بڑی فضیلت کے حا مل ہیں ،تکفیر سیئات اور رفع درجا ت کا ذریعہ ہے۔( اللہ تعا لیٰ عمل کی توفیق دے ) آمین ۔ سوال۔ کو ہا ٹ سے عبد العلام دریا فت کر تے ہیں کہ شوال کے چھ روزوں کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ کیا انہیں عید الفطر کے فوراً بعد رکھنا چاہیے یا متفرق طو ر پر بھی رکھے جا سکتے ہیں ؟ جواب۔عیدالفطر کے بعد ما ہ شوال کے چھ روزے بڑی اہمیت رکھتے ہیں ، احا دیث میں ان کی بڑی فضیلت بیا ن ہو ئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرا می ہے : کہ جس کا ماہ رمضا ن روزے سے گزرا ،پھر شوال کے چھ روزے رکھے ، اسے سا ل بھر کے روزے رکھنے کا ثواب ہو گا ۔ (صحیح مسلم :کتا ب الصیا م ) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت میں یہ فضیلت ایک دوسرے انداز میں بیان ہو ئی ہے ۔ارشا د نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جس نے ما ہ رمضا ن کے روزے رکھے ،اس کے بعد ما ہ شوال کے بھی چھ روزے پو رے کیے ، وہ گنا ہو ں سے یو ں پا ک ہو جا تا ہے گو یا آج ہی شکم ما در سے پیدا ہو ا ہے۔ اسی طرح حضرت ثو با ن ،حضرت ایو ب ، حضرت ابو ہریرہ ، حضرت ابن عبا س ، اور حضرت عازب رضی اللہ عنہم سے بھی ما ہ شوال کے چھ روزو ں کے متعلق احادیث مرو ی ہیں۔ اکثر محدثین نے چھ روزوں کے استحبا ب اور مشروعیت سے اتفا ق کیا ہے، البتہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ،امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے ان کے متعلق کرا ہت منقول ہے جو بلا دلیل ہے۔ بہتر ہے کہ عید الفطر کے متصل بعد چھ روزے مسلسل رکھ لیے جا ئیں تا ہم اگر ماہ شوال میں متفرق طور پر پو رے کر لیے جا ئیں تو بھی جا ئز ہے ۔ سوال۔ سیف الرحمن صدیقی بذریعہ ای میل سوال کر تے ہیں کہ عرفہ کا روزہ نو یں ذوالحجہ کو رکھنا چا ہیے یا جس دن سعودیہ میں عرفہ کا دن ہو تا ہے خواہ ہما رے ہا ں ذوالحجہ کی سا ت یا آ ٹھ تا ریخ ہو ؟ جوا ب ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشا د گرا می ہے : کہ یو م عر فہ کا روزہ رکھنے سے گزشتہ اور آیندہ سا ل کے گنا ہ معا ف ہو جاتے ہیں ۔(صحیح مسلم) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رسول رحمت ہیں اور آسا ن دین لے کر آئے ہیں ،اس رحمت اور آسا نی کا تقا ضا یہ ہے کہ عرفہ کا روزہ نو یں ذوا لحجہ کو رکھا جا ئے ۔سعودیہ میں یو م عرفہ کے سا تھ اس کا مطا بق ہو نا ضروری نہیں ،اس کی درج ذیل وجو ہا ت ہیں : میں نے علا مہ البا نی رحمۃ اللہ علیہ کی تصا نیف میں خو د اس روایت کو دیکھا ہے لیکن اب اس کا حوالہ مستحضر نہیں،اس روایت میں یوم عر فہ کے بعد الیو م التا سع کے الفا ظ ہیں جس کا معنی یہ ہے کہ نو یں ذو الحجہ کو روزہ رکھا جا ئے ۔
Flag Counter