Maktaba Wahhabi

209 - 495
حضرت ابو عطیہ رضی اللہ عنہ فرما تے ہیں کہ میں اور حضرت مسروق ،ام المو منین عا ئشہ رضی اللہ عنہا کے پا س آئے اور عرض کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحا بہ کرا م رضی اللہ عنہم میں سے دو ایسے ہیں کہ ایک جلدی روزہ افطا ر کر تے ہیں اور جلدی نماز پر ھتے ہیں جبکہ دوسرا تا خیر سے روزہ سے کھو لتے ہیں اور نماز بھی دیر سے پڑھتے ہیں ( ان میں کو ن سنت کے مطا بق عمل کرتا ہے)۔حضرت عا ئشہ رضی اللہ عنہا نے دریا فت فر ما یا کہ جلدی کر نے والا کو ن ہے ؟ ہم نے عر ض کیا کہ وہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہیں۔ اس پر حضرت عا ئشہ رضی اللہ عنہا نے فر ما یا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح عمل کر تے تھے ،یعنی ان کا عمل سنت کے عین مطا بق ہے، دوسر ے صحا بی حضرت ابو مو سیٰ اشعری رضی اللہ عنہ ہیں ۔(صحیح مسلم : الصیا م 1099) افطا ری جلدی کر نے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :’’ کہ لوگ اس وقت تک خیر و بر کت میں رہیں گے جب تک وہ افطا ری کر نے میں دیر نہیں کر یں گے ۔‘‘ (صحیح بخا ری ،الصوم 1957) ابن حبا ن کی روایت سے معلو م ہوتا ہے کہ غروب آفتا ب کے بعد احتیا ط کا بہا نہ بنا کر دیر کر نا یہود و نصار یٰ کا شیو ہ ہے ،چنانچہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ یہو د و نصا ریٰ تا خیر سے افطا ر کر تے ہیں تم روزہ جلد افطا ر کیا کرو ۔ (صحیح ابن حبان :6/209) بلکہ ایک روایت میں مزید وضا حت ہے کہ میری امت کے لو گ اس وقت تک میر ے طریقے پر گا مزن رہیں گے جب تک وہ روزہ افطا ر کر نے کے لیے ستاروں کے چمکنے کا انتظار نہیں کر یں گے ۔(بیہقی4/238) احا دیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحا ب کا ایک امتیا زی وصف با یں الفا ظ بیان ہو ا ہے کہ وہ افطا ری جلدی کر تے اور سحری دیر سے تنا ول فر ما تے تھے ۔(جا مع ترمذی :کتا ب الصوم ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا روزہ کے متعلق افطا ر کا عمل اس قدر جلدی ہو تا کہ آپ دوسرو ں کے احتیا طی رویہ کو مسترد فرمادیتے ،چنانچہ حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرا ہ ماہ رمضا ن میں سفر کر رہے تھے، جب سو رج غروب ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :" کہ سواری سے اتر کر ستو تیا ر کرو " عرض کیا گیا کہ ابھی تو دن کی روشنی نظر آرہی ہے زرا تا خیر کر لی جا ئے بہتر ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ سواری سے اتر کر ستو تیا ر کرو ۔چنا نچہ آپ کے لیے ستو تیار کیے گئے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نو ش فر ما یا ۔ اس کے بعد وہی الفا ظ استعمال کیے جو پہلے بیا ن ہو چکے ہیں۔ (صحیح مسلم ۔الصیا م 110) ان احا دیث کے پیش نظر ہمیں چا ہیے کہ جب سو رج غروب ہو نے کا اطمینان ہو جا ئے تو روزہ افطا ر کر دینا چا ہیے، احتیا ط کے پیش نظر دیر کرنا صحیح نہیں ہے،اسے یہو د و نصا ریٰ کی علا مت بتا یا گیا ہے ۔(واللہ اعلم با لصواب ) سوال۔ جھنگ سے اللہ دتہ دریا فت کرتے ہیں کہ مندرجہ ذیل حدیث کا حوالہ درکا ر ہے : "نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت جا بر رضی اللہ عنہ نے با دل کی وجہ سے غروب آفتا ب سے پہلے ہی روزہ افطا ر کیا تھا ،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم عید کے بعد اس روزہ کی قضا دیں گے ۔‘‘ جواب ۔ مطلع ابر آلو د ہو نے کی وجہ سے غروب آفتا ب سے قبل روزہ افطا ر کر نے کا ذکر مندرجہ ذیل حدیث میں ہے : ’’حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبا رک میں ایک دن جب کہ با د ل چھا ئے
Flag Counter