Maktaba Wahhabi

208 - 495
سحری کرے تو ایسی حا لت میں روزہ صحیح ہو گا یا نہیں ؟ جوا ب ۔جنا بت کی حا لت میں روزہ رکھا جا سکتا ہے، حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بحا لت جنا بت روزہ رکھ لیتے تھے ۔(صحیح مسلم :کتا ب الصوم ) اگر چہ سید نا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا فتوی تھا کہ جنبی آدمی غسل کیے بغیر روزہ نہ رکھے لیکن ان کے سا منے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل آیا تو انہوں نے فو راً اپنے فتوی سے رجو ع کر لیا ۔(صحیح مسلم :کتا ب الصوم) سید ہ عا ئشہ رضی اللہ عنہا کا بیا ن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنبی ہو تے، پھر آپ نہائے بغیر روزہ رکھ لیتے ،سحری کھا نے کے بعد غسل کر کے نماز فجر ادا کرتے ۔(صحیح مسلم ) اسی طرح احتلا م سے بھی روزہ خرا ب نہیں ہو تا، اذان فجر سے قبل صحبت کر نے سے روزہ نہیں ٹو ٹتا ،ہا ں اگر اذان کے بعد ہم بستری کرتا رہا تو پھر روزہ ٹو ٹ جا ئے گا ، اسے کفا رہ بھی دینا ہو گا اور اس رو ز ہ کی قضا بھی ضروری ہے ۔ سوال۔ لا ہو ر سے محمد اکر م لکھتے ہیں کہ بعض اسلا می کتا بو ں میں روزہ رکھنے کی نیت لکھی ہو ئی ہے اس کی شر عی حیثیت کیا ہے ؟ جواب ۔فرض روزہ کے لیے طلو ع فجر سے پہلے نیت کر نا ضروری ہے، حدیث میں ہے کہ جو طلو ع فجر سے پہلے روزہ رکھنے کی نیت نہیں کر تا وہ روزہ نہ رکھے۔(سنن نسا ئی :کتا ب الصوم ) بعض روایا ت میں ہے کہ اگر نیت کے بغیر روزہ رکھ لیتا ہے تو اس کا روزہ نہیں ہے، لیکن نیت دل کا فعل ہے، اس کے لیے کو ئی مخصوص الفا ظ نہیں ہیں ،جیسا کہ بعض کتا بو ں میں لکھا ہو تا ہے، زبا ن سے نماز یا روزہ کی نیت کر نا بد عت ہے، جس کا حدیث سے ثبوت نہیں ملتا ،صرف اللہ سے ثواب لینے کے لیے دل سے عزم کر لینا ہی نیت ہے ،پھر یہ نیت ہر روزہ کے لیے انفرادی ہو نی چاہیے ،چاند نظر آنے کے بعد سا رے رمضان کے روزوں کی اجتما عی نیت بھی صحیح نہیں ہے۔ نفل روزہ کے لیے بھی نیت ضروری ہے لیکن ا س کے لیے ضروری نہیں ہے کہ اس کے لیے طلو ع فجر سے پہلے نیت کی جا ئے بلکہ جب بھی روزہ رکھنے کا پر و گرا م ہو اسی وقت نیت کی جا سکتی ہے ۔سید ہ عا ئشہ رضی اللہ عنہا کا بیا ن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے کسی کھا نے کی چیز کے متعلق دریا فت فر ما تے اگر مو جو د ہو تی تو تنا ول فرما لیتے اگر موجو د نہ ہو تی تو فر ما تے :میں روزہ رکھ لیتا ہو ں ۔(سنن ابو داؤد ) اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ نفلی روزہ کے لیے طلو ع فجر سے پہلے نیت کر نا ضروری نہیں ہے بلکہ اس کے بعد بھی نیت کی جا سکتی ہے ۔(واللہ اعلم بالصواب ) سوال۔ سا ہیوا ل سے عبد القدوس لکھتے ہیں کہ ہما رے ہا ں عا م طور پر غرو ب آفتا ب کے بعد احتیا طاً دو تین منٹ روزہ افطا ر کر نے میں انتظا ر کیا جا تا ہے اس "احتیا ط " کی شرعاً کیا حیثیت ہے ؟ جواب۔حدیث کے مطا بق افطا ری کا وقت غرو ب آفتا ب ہے ۔اگر کسی شرعی عذر کی بنا پر کبھی کبھار ایک دومنٹ تا خیر ہو جا ئے تو چنداں حرج نہیں ،البتہ احتیا ط کے پیش نظر ہمیشہ تا خیر کرنا مکرو ہ بلکہ ممنو ع ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فر ما ن ہے: "جب ادھر رات آجا ئے اور ادھر دن چلا جا ئے اور سورج بھی غروب ہو جا ئے تو روزے دار کو روزہ افطا ر کر دینا چا ہیے ۔(صحیح مسلم :الصیا م1100)
Flag Counter