Maktaba Wahhabi

191 - 495
اب یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مسجد نبو ی قبر ستا ن میں بنا ئی گئی کیو ں کہ قبرو ں کو نیست ونا بو د کر دیا گیا تھا ، اس طرح اگر مسجد حرا م یا حطیم میں قبر یں تھیں تو وہ حوادث زما نہ سے خو د بخو د ختم ہو گئی ہیں۔ ملا علی قا ری کہتے ہیں :"کہ حضرت اسما عیل علیہ السلام کی قبر (اگر تھی ) تو وہ ختم ہو چکی ہے، لہذا اس سے مسجد میں قبر کے جو از پر استدلا ل صحیح نہیں ہے ۔(مر قا ۃ ) سوال میں ایک بے بنیا د سی با ت کا ذکر ہے کہ بیت اللہ کا طوا ف انہیں قبروں کی وجہ سے ہو تا ہے، اصل بات یہ ہے کہ قبر کے پجاریو ں میں قبر پرستی کے جرائم اس قد ر سرا یت کر چکے ہیں کہ اب انہیں ہر جگہ یہی بو آتی ہے اس سے بڑھ کر اور شر ک کیا ہو سکتا ہے کہ اللہ تعا لیٰ نے اپنی عبا دت کےلیے اس گھر (بیت اللہ ) کو تعمیر کر وا یا اور اس کا طواف کر نے کو بھی اپنی عبا د ت قرار دیا تو پھر طوا ف جیسی اہم عبا دت میں کسی کی شراکت کیو نکر گوارا ہو سکتی ہے، پھر یہ گھر تو مذعومہ قبرو ں کے معر ض و جود میں آنے سے پہلے مو جود تھا اور اس کا طوا ف کیا جا تا تھا، یقیناً یہ بہت بڑا جھو ٹ ہے جو اللہ تعا لیٰ کے ذمہ لگایا جا تا ہے۔ اللہ تعا لیٰ ہمیں اس قسم کے شر ک اکبر سے محفو ظ رکھے اور بے بنیا د با تو ں، نیز بے اصل کا مو ں سے دور رکھے ۔آمین (واللہ اعلم ) سوال۔ حا فظ آباد سے ضیاء اللہ سوال کر تے ہیں کہ جو شخص بغرض عمرہ سعودیہ جا تا ہے وہا ں چھپ کر کئی سال تک کا م کر تا ہے ایسے شخص کی کما ئی جا ئز ہے ؟ جوا ب۔ مملکت سعودیہ میں عمرہ کےلیے جا نا بہت بڑا اعزاز ہے لیکن وہاں کے قوا نین و ضوابط کی پا بند ی بھی انتہا ئی ضروری ہے، ان کی خلاف ورزی کر نے سے کئی ایک مسا ئل پید ا ہو جا تے ہیں، البتہ ویز ے کی مد ت کے دورا ن محنت و مز دوری کر نا کو ئی جر م نہیں ہے، حج کے مو قع پر دنیا وی کا روبا ر کر نے کی خو د قرآن کر یم نے اجا ز ت دی ہے، ارشاد باری تعا لیٰ :’’دورا ن حج اگر تم ’’فضل ربی‘‘ تلا ش کر و تو کو ئی حرج نہیں ہے ۔‘‘ (2/البقرۃ : 198) لیکن یہ کا رو با ر اس مدت کے دورا ن ہو نا چا ہیے جتنی مد ت کا قیا م رکھنے کی اجا زت دی گئی ہے، اس مدت کے بعد چھپ کر وہا ں رہنا اور کمائی کر نا ملکی قوا نین کی خلا ف ورزی تو ضرور ہے لیکن کمائی کے حلال و حرام ہو نے پر اس کا کو ئی اثر نہیں ہو گا۔ اگر حلال ذرا ئع سے کما ئی کر تا ہے تو بلا شبہ حلا ل اور جا ئز ہے اور اگر نا جا ئز وسا ئل کے استعما ل سے دو لت اکٹھی کر تا ہے تو حرا م اور نا جا ئز ہے۔ ملکی قوا نین کی خلا ف ورزی ایک الگ مو ضو ع ہے جس کی شر یعت اجا ز ت نہیں دیتی ہے ۔ سوال۔ لا ہور سے اکرام بھٹی لکھتے ہیں کہ مندرجہ ذیل روایت کے متعلق تحقیق در کا ر ہے کیو نکہ ہما رے واعظین اسے بکثر ت بیان کر تے ہیں جبکہ کچھ علماء اسے صحیح نہیں کہتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحا بہ کرا م رضی اللہ عنہم نے آپ سے دریا فت کیا کہ ان قربا نیوں کی کیا حیثیت ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :" کہ تمہا رے با پ ابرا ہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ انہو ں نے عرض کیا کہ ہمیں اس سے کیا حا صل ہو گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :"تمہیں قربانی کے ہر با ل کے بدلے نیکی ملے گی۔‘‘ جوا ب۔ اس روا یت کو امام ابن ما جہ نے قر با نی کے باب میں بیا ن کیا ہے لیکن یہ روایت سخت ضعیف ہے بلکہ بعض محدثین نے اس کے موضوع ہو نے کا فیصلہ دیا ہے کیو ں کہ اس کی سند میں ایک راوی عا ئذ اللہ المجاشعی ہے جس کے متعلق علا مہ ذہبی نے امام ابو حا تم کے حوالہ سے لکھا ہے کہ یہ منکر رو ایا ت بیان کر نے وا لا ہے ۔(تلخیص المستد رک :1/389)
Flag Counter