Maktaba Wahhabi

190 - 495
چو نکہ حج یا عمرہ بھی ایک سفر ہے، لہذا محر م کے بغیر اسے ادا نہیں کر نا چا ہیے جبکہ بعض دوسرے علماء کا خیا ل ہے کہ عورت کے لیے زاد اور را حلہ کے علا وہ خا وند یا محر م کی معیت اس کی ضرورت نہیں ہے، چنانچہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ : جس عورت نے حج نہیں کیا اوراس کا کو ئی محر م نہیں یا مو جود ہو نے کی صورت میں کسی وجہ سے سا تھ نہیں جا سکتا تو فریضہ تر ک نہ کر ے بلکہ دوسری عورتو ں کی جما عت کے ہمرا ہ جا کر حج ادا کر ے ۔( مؤطا امام ما لک رحمۃ اللہ علیہ :کتا ب الحج ) امام شا فعی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی یہی مو قف اختیا ر کیا ہے، صورت مسئولہ میں ہمارا مو قف یہ ہے کہ بیو ہ عورت اپنے سا تھ ما لی تنگی کی وجہ سے محرم کو سا تھ لے جا نے سے قا صر ہے، لہذا اگر ایسی عورت دوسر ی دیندار قابل اعتما د عورتو ں کے سا تھ حج پر چلی جائے جو اپنے شو ہرو ں یا محرموں کے ہمرا ہ حج پر جا رہی ہوں تو ان شا ء اللہ کو ئی مواخذہ نہیں ہو گا، البتہ اسے اکیلے حج پر جا نا شر عاً جائز نہیں ہے ۔ سوال ۔قا ری محمد یحیی صا حب اٹک سے دریا فت کرتے ہیں کہ کیا بیت اللہ کے اند ر اور میزا ب رحمت کے نیچے قبر یں مو جو د ہیں اور بیت اللہ کا طو اف انہیں قبرو ں کی وجہ سے کیا جا تا ہے ؟ ہما رے ہا ں ایک بریلوی عا لم دین نے اس قسم کا دعویٰ کیا ہے قرآن و حدیث کے حو الہ سے جواب مطلو ب ہے ؟ جو اب ۔ بر یلو ی حضرا ت جو ہر سا ل حج بیت اللہ کی سعادت حا صل کر کے وا پس وطن آتے ہیں ان سے پوچھا جا سکتا ہے کہ انہو ں نے اس "نئی دریا فت کا مشا ہدہ کیا ہے؟ یقیناً یہ دعویٰ با طل غلط اور بے بنیا د ہے۔ اگر چہ بعض مؤر خین نے بلا تحقیق ایسی با تو ں کو اپنی کتا بو ں سے نقل کیا ہے لیکن یہ سب خو د سا ختہ ہیں، مثلاً محب الدین الطبری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ مقا م ابرا ہیم اور زمزم کے درمیا ن ننا نو ے انبیا ئے کرام مدفو ن ہیں :" نیز حضرت اسما عیل علیہ السلام اپنی وا لدہ ہاجرہ رضی اللہ عنہا کے ہمرا ہ حطیم میں محو استرا حت ہیں، اس کے علا وہ حضرت ہو د علیہ السلام ، حضرت صا لح علیہ السلام اور حضرت شعیب علیہ السلام کی آخری آرام گا ہیں بھی اسی خطہ میں ہیں۔ یہ با تیں علا مہ ازرقی کی تا لیف اخبار مکہ کے حو الہ سے نقل کی ہیں ۔ (القری فی احوا ل ام القری :ص 6) لیکن ان ’’ حقا ئق ‘‘ کو بلا سند بیان کیا گیا ہے جبکہ محدثین عظام کے ہا ں سند صحیح ہو نا ہی کسی با ت کے صحیح ہونے کی دلیل ہے، بلا سند ہو نے کی وجہ سے محدثین نے ایسی با تو ں کو اپنی کتب میں جگہ نہیں دی ہے۔ علامہ سیو طی رحمۃ اللہ علیہ نے الکنیٰ للحاکم کے حوا لہ سے بروایت عا ئشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ایک حد یث با یں الفا ظ نقل کی ہے : ان قبر اسما عیل فی الحجر (الجا مع الصغیر)حضرت اسما عیل علیہ السلام کی قبر حطیم میں ہے ۔ لیکن مصنف نے خود ہی اس حدیث کے ضعیف ہو نے کی صراحت کردی ہے، پھر محد ث عصر علا مہ البا نی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے ۔(ضعیف الجا مع الصغیر :حدیث نمبر 1905) اگر اسے صحیح بھی ما ن لیا جا ئے تو بھی اس مو قف کی دلیل نہیں بن سکتی کیو ں کہ بر یلو ی عا لم دین نے بیا ن کیا ہے کیو ں کہ اگر قبر کا وجود ختم ہو جا ئے تو اس کے احکا م وہ نہیں ہیں جو ظا ہر قبر کے ہو تے ہیں، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے جس جگہ مسجد کی بنیا د رکھی تھی اس کے ایک حصہ میں مشر کین کی قبر یں تھیں انہیں اکھا ڑ کر پھینک دیا گیا اور جگہ صاف کر کے وہا ں مسجد نبو ی صلی اللہ علیہ وسلم کی بنیا د رکھی گئی ۔(صحیح بخا ری)
Flag Counter