Maktaba Wahhabi

183 - 495
وغیرہ اگر اس قسم کے پھل حد نصاب کو پہنچ جا ئیں تو ان پر زرعی زکو ۃ واجب ہو گی ۔ (5)کپا س بھی زمینی پیداوار ہے اور ہما ر ے ملک میں تو خا صی منفعت بخش فصل ہے، لہذا اس میں بھی عشر ادا کر نا ہو گا، یعنی بیس من میں سے ایک من بطو ر عشر ادا کیا جا ئے، اگر کو ئی کا شتکا ر تجا رت پیشہ بھی ہے تو اسے چا ہیے کہ اگر کپا س کی پیداوار نصا ب کو پہنچ جا ئے تو اس سے پہلے عشر ادا کر ے اور پھر اگر تجا رت میں فروخت کر دیتا ہے تو اس کی رقم حد نصا ب کو پہنچ جا ئے تو تجا رتی زکو ۃ بھی ادا کر ے، یعنی کھیتی باڑی کا حساب علیحدہ ہو گا اور تجا رتی ما ل کی زکو ۃ کا حسا ب الگ ہو گا ، تجا رتی ما ل کی رقم خواہ کہا ں سے بھی آئے اس سے زکوۃ ادا کر نا ضروری ہے۔ کپا س کا ذکر حدیث میں بھی ہے، چنا نچہ ابیض بن حما ل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پا س آئے اور صدقہ وغیرہ کی معا فی کے لیے درخوا ست کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے قو م سبا سے تعلق رکھنے وا لے!صدقہ کی ادائیگی تو ضروری ہے۔ پھر اس نے مزید وضا حت کی کہ ہم تو صرف کپا س کا شت کر تے ہیں اور سباپر جب آفت آتی ہے تو ماٰ رب مقا م پر تھو ڑی بہت کپا س کا شت ہو تی ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ستر جوڑے سا لا نہ وصول کر نے پر اس سے صلح کر لی ۔(ابو داؤد : النحر اج 3028) مختصر یہ ہے کہ کپا س سے بھی عشر دینا ہوگا ۔ (6)ہما رے بعض علا قو ں میں گنا بھی کا شت کیا جا تا ہے، اگر اسے ملو ں کو فرو خت کر دیا جا ئے تو اس سے تجارتی زکو ۃ ہو گی اور اگر اسے بطور چارہ استعما ل کر لیا جا ئے تو قا بل معا فی ہے۔ اگر اس کما د سے گڑ ،شکر یا چینی بنا ئی جا ئے تو اس سے عشر دینا ہو گا بشر طیکہ حد نصا ب کو پہنچ جا ئے ۔ (7) اگر کسی نے اپنی زمین کسی دوسرے کو عا ریۃ برائے کا شت دی ہے تو اس صورت میں جس نے فصل اٹھائی ہے وہی اس کا عشر وغیرہ ادا کر ے گا۔ ما لک زمین کے ذمے اس کی ادائیگی نہیں ہے کیو ں کہ اسے کوئی فا ئد ہ نہیں ہو رہا، اگر زمین کے ما لک نے کسی دوسر ے کو طے شدہ حصے پر کا شت کر نے کے لیے دی ہے تو اس صورت میں دو مو قف ہیں : (1)ہر ایک کا حصہ اگر حد نصا ب کو پہنچ جا ئے تو اس سے عشر دینا ہو گا اگر کسی کا بھی حصہ حد نصا ب تک نہیں پہنچتا تو کسی پر وا جب نہیں یعنی جس شخص کا حصہ حد نصا ب کو پہنچ جا ئے گا اسے اپنے حصے سے عشر دینا ہو گا ۔ (2)امام شا فعی رحمۃ اللہ علیہ، امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا یہ مو قف ہے کہ اگر مجمو عی پیدا وار حد نصا ب کو پہنچ جا ئے تو ہر ایک اپنے حصے کے مطا بق عشر ادا کر نے کے بعد دو نو ں طے شدہ حصو ں کے مطا بق پیداوار کو تقسیم کر لیں گے۔ ہما رے نزدیک یہ دوسرا مو قف وزنی معلو م ہوتا ہے، نیز اس میں غربا اور مساکین کا بھی فا ئدہ ہے۔ خیبر کی زمین بھی پیدا وار کے لیے طے شدہ حصے کے عو ض کا شت کی جا تی تھی۔ چو نکہ یہو دی عشر ادا کر نے کے پابند نہیں تھے۔ اس کے لیے صحا بہ کرا م رضی اللہ عنہم کو جو حصہ ملتا اگر وہ نصا ب کو پہنچ جا تا تو اس سے اللہ تعالیٰ کا حصہ الگ کر دیتے تھے۔ اگر زمین کو ٹھیکے پر دے دیا جا ئے تو زمیندا ر چو نکہ زمین کا ما لک ہو تا ہے وہ ٹھیکے کی اس رقم کو اپنی مجموعی آمد نی میں شا مل کر کے زکو ۃ ادا کر ے گا، بشر طیکہ وہ نصا ب کو پہنچ جا ئے اور اس کی ضرورت سے فا ضل ہو اور اس پر سا ل بھی گز ر جا ئے۔ زمین ٹھیکے پر لینے وا لا کا شت کر نے میں خود مختار ہوتا ہے اور پیداوار کا ما لک بھی وہی ہوتا ہے،تو وہ صاحب اختیار ہونے کی حیثیت سے عشر ادا کرے گا ،ٹھیکے کی رقم اس سے منہا نہیں کی جائے گی،
Flag Counter