Maktaba Wahhabi

159 - 160
A System of Government of the peoples, for the peoples by the peoples. ’’عوام کی حکومت، عوام کے لیے اور عوام کے ذریعے۔‘‘ گویا اس تعریف کی رو سے سیاسی طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں ۔ عوام حق رائے دہی کے ذریعے سیاسی و قانونی اختیارات ارکانِ پارلیمنٹ کومنتقل کرتے ہیں اور جمہوری حکومت کا مقصد عوام کی خدمت ہوتاہے۔ حالاتِ حاضرہ پر نظر دوڑائیں تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ جمہوری نظام میں عوام ووٹوں کے ذریعے پارلیمنٹ کے ارکان کو منتخب کرنے کے بعد قانون سازی میں بے اختیار ہوجاتی ہے۔ حکو متی اُمور سے متعلق عوام کا عمل دخل متعین عرصہ کے لیے ختم ہوجاتا ہے۔ انتخابی اُمیدوار عوامی حمایت اورووٹ بنک میں اضافہ کے لیے الیکشن مہم پر لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں ۔یہی ارکان ایوانِ بالا اور قائد ِایوان کے انتخاب کے موقع پر رفاہی کاموں کی آڑ میں کروڑوں روپے وصول کرتے ہیں ،اس لیے ہمیں ایک کالم نگار کی اس تعریف سے اتفاق کرنا پڑتا ہے۔ Government off the people, far the people, buy the people. ’عوام کی حکومت‘ یا ’اللہ کی حکومت ‘ اگر آپ اس تعریف عوام کی حکومت، عوام کے لئے، عوام کے ذریعے کا اسلامی نقطہ نظر سے جائزہ لیں تو یہ نظریہ عقیدۂ توحید کے منافی ہے۔ حاکمیت ربّ ِذوالجلال کی: جمہوری حکومت میں حاکمیت کا سرچشمہ عوام ہے جبکہ حقیقت حال اس کے برعکس ہے۔ سارے جہان کے عوام مل کر مکھی بھی تخلیق نہیں کرسکتے، کجا یہ تو قرآن کی زبان میں مکھی چھین کر لے جائے تو واپس نہیں لا سکتے۔خشک سالی کی وجہ سے فصلیں تباہ و برباد ہورہی ہوں تو عوام مل جل کرقدرتی بارش کا بندوبست نہیں کرسکتے۔ کیا عوام چاہتے ہیں ؟ کہ آسمانی بجلی، سیلاب اور زلزلہ سے گاؤں بستیاں تباہ و برباد ہوجائیں اور آناً فاناً ہزاروں جانیں لقمۂ اجل بن جائیں ۔ قطعاً نہیں چاہتے لیکن دنیابھر کے سائنس دان حکمران مل کر بھی ان کا تدارک نہیں کرسکتے۔
Flag Counter