Maktaba Wahhabi

158 - 160
بنیادی ضروریات فراہم کرنے کی ضمانت دیتا ہے۔اسلام باہمی اخوت و مودّت کا درس دیتا ہے۔ پڑوسی کے حقوق، فطرانہ، قربانی اور زکوٰۃ کا اجتماعی نظام اس کا بین ثبوت ہے۔ چنانچہ اشتراک و تعاون کی قدر کو مشترک بنا کرسوشلزم سے پہلے ’اسلامی‘ نتھی کرنا غلط ہے کیونکہ سوشلزم یہودی النسل مارکس کے ذہن کی اختراع ہے۔ سوشلزم میں مذہب کا تصور بغاوت کا دوسرا نام ہے۔ اس نظام میں انسانی عزت، جان و مال کی کوئی قدروقیمت نہیں ۔ حتیٰ کہ زر اور زمین کی طرح زن (عورت) بھی ریاستی افرادکی مشترکہ ملکیت تصور کی جاتی ہے۔ سوشلزم میں ’انسانی سرچشمہ رزق‘ کا نظریہ تو کارفرما ہے مگر وہ فرد کی ذاتی ملکیت کو استحصال سمجھتا ہے اور ریاست کا مفاد ہی مرکز و محور ہے۔ گویا سیاسی و معاشی قوت سرکاری جماعت میں مرکوز ہوکر رہ گئی اورفرد حکومت کے مقابلے میں بے بس ہوکر رہ گیا۔ عملی طور پر لینن، ٹرانسکی اور سٹالن یہودی النسل نے مل کر براہِ راست مارچ ۱۹۱۷ء میں روس پر قبضہ کرلیا۔ دوسری طرف اسلام دین و دنیا کی فوز و فلاح کا نام ہے۔ حق ملکیت کی اجازت دیتاہے لیکن ذخیرہ اندوزی کی ممانعت کرتاہے۔ اسلام صاحب ِثروت لوگوں کو صدقہ خیرات، عشر زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم دیتاہے تاکہ اپاہج، معذور، یتیم اور عیال دار لوگوں کو روزہ مرہ زندگی کی ضروریات کے لیے کسی قسم کی دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اس لیے اسلام ارتکازِ دولت کی بجائے گردشِ دولت کا نظام ہے۔جہادِ افغانستان کی برکت سے سوشلسٹ ممالک میں یہ نظام دم توڑ گیا۔اس لیے اس موضوع پر اب مزید بحث کرنے کی ضرورت نہیں ۔ اسلام میں باہمی اُمور طے کرنے کے لیے مشورہ کا حکم ہے۔اس کو بنیادبنا کر اسلامی دنیا کے بعض مفکرین نے جمہوریت کو اسلام کی روح کہناشروع کردیا اور اسلامی جمہوریت کی اصطلاح عام ہوگئی۔ اس بنا پر اصلاحی نقطہ نظر سے اپنا موقف پیش کرتاہوں کہ حکومت ِالٰہیہ کے خدوخال کیا ہیں اور جمہوریت کے جرثومہ سے نیشنلزم، سیکولر ازم اور کیپٹل ازم کے وبائی امراض کس طرح پھوٹتے ہیں ۔ ڈیمو کریسی کی تعریف ابراہم لنکن نے ڈیموکریسی کی جو تعریف کی ہے، وہ سیاسی حلقہ میں معروف ہے:
Flag Counter