یادِ رفتگاں محمد یوسف انور، فیصل آباد پروفیسر عبد الجبار شاکر کا سانحۂ ارتحال پچھلے سال مجلس احرار کی آخری نشانی مولانا مجاہد الحسینی نے سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر لکھی جانے والی اپنی تازہ تالیف کی تقریب ِرونمائی یہاں ایک ہوٹل میں منعقد کی جس کے مہمانِ خصوصی ہمارے فاضل دوست پروفیسر عبد الجبار شاکر تھے۔ اس خوبصورت تقریب میں ہر طبقہ زندگی سے اہل علم اور ممتاز حضرات مدعو تھے۔ پروفیسر صاحب تشریف لائے اور سیرت پر اپنے مخصوص اُسلوبِ خطابت سے حاضرین کو محظوظ فرمایا۔ ان کے حکمت ودانش بھرے جملے آج بھی کانوں میں رس گھول رہے ہیں ۔ اُنہوں نے کہا کہ ایک کامل ومکمل معلم کے لئے ذیل کے معیاروں پر اُترنا ضروری ہے : ٭ اس کی زندگی کا کوئی پہلو پردہ میں نہ ہو۔ ٭ اس کی ہر زبانی تعلیم کے مطابق اس کی عملی مثال بھی سامنے ہو۔ ٭ اس کی اخلاقی زندگی میں یہ جامعیت ہو کہ وہ انسانوں کے ہر کار آمد گروہ کے لئے اپنے اندر اِتباع وپیروی کا سامان رکھتی ہو۔ اُنہوں نے کہا کہ تنقید کے ان معیاروں پر اگر ہم سارے انبیاء اور مذاہب کے بانیوں کی زندگیوں کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ ان میں سے کسی کی زندگی بھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کے برابر جامع کمالات نہیں ، کوئی پیغمبر یا بانی مذہب ایسا نہیں ہے جس کی زندگی کا ہر پہلو اس طرح ہمارے سامنے بے نقاب ہو کہ گویا وہ خود ہمارے سامنے موجود ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام سے لے کر حضرت موسیٰ علیہ السلام تک توراۃ کے ایک ایک پیغمبر پر نگاہ ڈالتے جاؤ، ان کی معصوم زندگی کے حالات کی کتنی سطریں تمہارے سامنے ہیں ۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تینتیس ۳۳ برس کی زندگی میں سے صرف تین برس کا |