معیشت واقتصاد پروفیسر ڈاکٹر محمد امین٭ ’اسلامی بنکاری‘ کی شرعی حیثیت اسلام اور مغرب کے اَساسی تصورات کے تناظر میں آج کل ملک کے دینی حلقوں میں مزعومہ ’اسلامی بنکاری‘ پر بحث جاری ہے کہ اس کی شرعی حیثیت کیا ہے اور اسلامی حوالے سے یہ بنکاری درست ہے یا نہیں ؟ اس ضمن میں سب سے پہلے تویہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ’اسلامی بنکاری‘ ہے کیا؟ کہ اس کے بعد ہی اس کی شرعی حیثیت کا تعین کیا جا سکے گا۔ مغرب کی تہذیب آج کل دنیا میں غالب ہے۔ مغرب کا معاشی نظام، جو بنیادی طور پر سود پر مبنی ہے، نظامِ سرمایہ داری (Capitalism) کہلاتا ہے۔ بجلی سے چلنے والی مشینوں کی ایجاد، وسیع پیمانے پر اشیاے تجارت کی پیداوار،ذرائع نقل وحمل اور رابطوں کی تیز رفتاری نے مغرب میں صنعتکاری یا انڈسٹریلائیزیشن (Industrialization) کو جنم دیا جس سے تجارتی سرگرمیوں میں تیزی آئی، تو لوگوں کی بچتوں کو ایک جگہ جمع کرنے، اس جمع شدہ رقم کو کاروبار میں لگانے کے لئے بطورِ قرض مہیا کرنے، خرید و فروخت میں بڑی رقوم کی ادائیگی کرنے، رقم کو ایک سے دوسری جگہ منتقل کرنے… جیسے کاموں کے لئے بنک وجود میں آئے جن کے یورپ میں بانی اور کرتا دھرتا یہودی تھے جو صدیوں سے اپنے سرمائے کو سود پر دینے کا کاروبار کر رہے تھے۔ اُنہوں نے ہی اپنے کام کو مزید وسعت دے کر بنک قائم کر لئے۔ بیسویں صدی کے وسط میں جب مغربی استعمار کو مجبوراً کچھ مسلم ممالک کو آزادی دینا پڑی اورکچھ آزاد (؟)مسلم ممالک وجود میں آئے تو مسلمانوں کا واسطہ بالفعل بنکنگ کے نظام سے پڑا۔ لیکنیہ دیکھ کر کہ یہ سارا نظام سود پر مبنی ہے اور اسلام مسلمانوں کو سود لینے دینے سے منع _______________ ٭ ڈین ’ شعبہ اسلامی فکر و تہذیب ‘ ..... یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی ، لاہور |