Maktaba Wahhabi

208 - 160
اسلام اور مغرب زاہد صدیق مغل حصہ سوم جدید اعتزال کے فکری ابہامات کاجائزہ اسلام اور ہیومن رائٹس اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا فرما کر دنیا میں اپنی بندگی او رعبادت کی ذمہ داری سونپی، عبث پیدا کردینے کی بجائے انسان کو مکلف بنایا کہ وہ عمل کی دنیا میں اپنے آپ کو بہتر واَحسن ثابت کرے۔ کامیاب انسان وہ ہے جو اس میزان پر پورا اُترا اور آخرت میں آگ سے بچ کر جنت کا مستحق ہوا۔ اس عظیم مقصد کے لئے اللہ نے انسان کو کسی رہنمائی کے بغیر چھوڑنے کی بجائے ایک مکمل نظامِ بندگی عنایت کیا، اپنے انبیا کو اللہ کی بندگی کا طریقہ سکھانے کی ذمہ داری عنایت فرمائی اور انبیا کی بعثت کو انسانیت پر احسانِ عظیم قرار دیا۔ مذکورہ بالا مقدمات براہِ راست چند قرآنی آیات کا مفہوم ہیں ۔ ایک طرف اللہ کی بندگی ہے تو دوسری طرف قرآنِ کریم نے ہی خواہش نفس کی بندگی کی تمثیل بیان فرما کر اس کی شدید مذمت کی۔خواہش نفس کی بندگی کے لئے شیطان دنیا میں موجود ہے او راسے حیاتِ دوام عطا کی گئی ہے۔ انسانیت نے ماضی میں اس کا کوئی باضابطہ اور منظم طریقہ دریافت نہیں کیا تھا، لیکن مغرب کی ’تحریک احیاے علوم‘ کا کرشمہ یہ ہے کہ اس کے وجود میں آنے کے بعد انسانیت نے خواہش نفس کی بندگی کے شیطانی مقصد کی تکمیل کو باقاعدہ علم اور منضبط فن بنالیا۔ جس طرح اللہ کی بندگی (اسلام) کی متعدد تفصیلات قرآن وسنت میں موجود ہیں ، اس طرح خواہش نفس کی بندگی کے بھی متعدد صغرے کبرے قائم کرلئے گئے۔ ایسا ماضی میں بھی ہوا تھا، لیکن انسانیت کی حالیہ ترقی نے اسے بامِ عروج تک پہنچا دیا۔ آج ہر دو نوعیت کی بندگیوں کے مابین شدید کشمکش کی کیفیت جاری ہے جسے قرآن حق وباطل کی کشمکش قرار دیتا ہے۔ مغربی تہذیب کی قوت یہ ہے کہ خواہش نفس کا داعیہ ہر انسان کے اندرموجود ہے، جس کے لئے اسے کسی بیرونی تلقین وترغیب کی ضرورت نہیں ، جبکہ اللہ کی بندگی بھی انسان کی سرشت میں داخل ہے لیکن بزبانِ رسالت (( حُفّت الجنة بالمکارہ)) جنت کو اپنے اوپر کنٹرول رکھنے جیسی چیزوں سے بھر دیا گیا ہے۔ زیر نظر مضمون میں انسانیت کی اپنی خواہشات کی پیروی کے جدید رویوں کا اسلام سے ایک تقابل پیش کیا جارہا ہے، جس کی تیسری قسط پیش خدمت ہے۔(ڈاکٹر حسن مدنی) ’ہیومن رائٹس‘ کا مفہوم زیر مطالعہ مضمون کے حصہ دوم میں مغربی تصور اتِ آزادی و مساوات کی وضاحت بیان کی
Flag Counter