خلافت وجمہوریت عطاء محمد جنجوعہ، سرگودھا حکومت ِ الٰہیہ اور جمہوریت ’’اللہ کی حکومت … امن و انصاف کے لیے …قرآن و سنت کے ذریعے‘‘ اہل مغرب نے آئینِ الٰہی کو پس پشت ڈال کر آسمانی ضابطۂ حیات کو عوام کی اکثریت کا تابع بنادیا جبکہ مشرق نے اہلِ مغرب کی غلامی کو ترقی کازینہ سمجھ کر قبول کرلیا اور اسلاف کی سیاست سے روگردانی کرلی۔ علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے مشرق و مغرب کا موازنہ کرتے ہوئے اظہار خیال کیا: یہاں مرض کا سبب ہے غلامی و تقلید وہاں مرض کا سبب ہے نظامِ جمہوری جمہوریت کے لغوی معنی جمہوریت یا ڈیموکریسی ظہورِ قدسی سے قبل یونان میں رائج رہا۔ ’ڈیموکریسی‘ یونانی الفاظ ڈیماس (Demos) اور کریشا (Karatos) کا مرکب ہے۔ ڈیماس کا مطلب عوام اور کریشا کا طاقت ہے۔ ڈیموکریسی کا مطلب ہوا ’عوام کی طاقت‘۔ گویا حکومت کے ہر مسئلہ میں عوام کی اکثریت کی رائے کا غلبہ ہو۔ جمہوریت کی ابتدا کیسے ہوئی؟ قدیم دور میں یونان پربادشاہ جبر و استبداد سے حکومت کررہے تھے۔ بادشاہ کی زبان قانون کا دوسرا نام تھی۔ اس کے حکم عدولی کی جرات کسی کو نہ تھی۔ یونان کے مفکرین کو ترکیب سوجھی کہ جب صحت، موت و حیات، نفع و نقصان، بارش و قحط اور فتح و شکست کے الگ الگ خدا ہیں ، مالک ِحقیقی نظامِ کائنات چلانے کے لیے دوسرے خداؤں کو اختیارات تفویض کرسکتا ہے اور وہ ان کے معاملات میں دخل نہیں دیتا، تو یونان کا بادشاہ خدا سے زیادہ طاقتور اور بڑا تو نہیں ہوسکتا |