Maktaba Wahhabi

155 - 160
قرآن پر حاوی رکھتے ہوئے ترازو، باٹ اور تولی جانے والی ہر شئے کو غلط ملط کر ڈالنے کے عادی تھے۔ قرآن، قرآن کی رَٹ لگاتے ہوئے بھی وہ اپنے قلبی آرا و افکار، ذہنی نظریات و معتقدات اوردماغی خیالات و تصورات کو اَصل قرار دے کر قرآنِ کریم کو ان کے مطابق ڈھالا کرتے تھے، نہ کہ ان (تخیلات و مزعومات) کو قرآن کے مطابق۔ پھر ایساکرتے ہوئے وہ ان لوگوں کی روش اپنایا کرتے تھے جو تاویل و تفسیر کے نام پر تحریف و ترمیم قرآن پرکمر بستہ رہے ہیں اور یہی رویہ ہمیشہ ہی سے ضالین اوربے توفیق لوگوں کا روّیہ رہاہے، لیکن بڑی ڈھٹائی اور بلند آہنگی سے وہ الٹا اعلان یہ کیا کرتے تھے : ’’ہمارے سامنے ، ہدایت اور ضلالت کا معیارقرآنِ مجیدہے۔ اگر ہمیں اپنی ہدایت و ضلالت کااندازہ لگانا ہو تو اس کے لیے ہمیں یہ کرنا چاہئے کہ اپنے دماغ میں جواعتقادات ہوں ، اُنہیں قرآنِ مجید کی کسوٹی پرپرکھیں اور ایسا کرتے ہوئے یہ ضروری ہے کہ ہم اس بات کا التزام رکھیں کہ اپنے دماغ کے کسی عقیدہ کو قرآن پر اثر انداز نہ ہونے دیں ، ورنہ ترازو، باٹ اور جس چیز کو تولا جارہا ہے۔ سب خلط ملط ہوجائیں گے اور ہم فیصلہ نہیں کرسکیں گے کہ ہدایت کیا ہے اور ضلالت کیا؟ میرا مطلب یہ ہے کہ قرآن کوتمام مذاہب ، آرا و افکار ، عقائد و خیالات کے بارے میں اصل مانناچاہئے نہ یہ کہ ہم مذاہب و عقائد کو اصل مان کر پھر ان پر قرآنِ مجید کو پرکھیں اور پھر قرآن مجید میں تاویل و تحریف کریں جیسا کہ ضآلین اور بے توفیق لوگوں کا شیوہ رہاہے۔‘‘ (طلوعِ اسلام: جنوری ۱۹۵۹ء ص۳۱) ’مفکر قرآن‘ کا اس ’وعظ ِ دل پذیر‘ کے ساتھ عمل کیا ہے، وہ مذکورہ بالا ساتوں مثالوں سے بخوبی عیاں ہے۔
Flag Counter