Maktaba Wahhabi

154 - 160
دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے قرآن بمقابلہ مغربیت اور روّیۂ پرویز یہاں ’مفکر قرآن‘ صاحب کے ’قرآنی ذوق‘ اور ’علمی مزاج‘ کایہ پہلو بھی قارئین کرام سے مخفی نہیں رہنا چاہئے کہ قرآنی تصریحات اور مغربی تحقیقات میں جب تعارض واقع ہوجاتا ہے تو ان کے نزدیک قرآنی تصریحات کی بجائے مغربی تحقیقات ہی شرفِ تقدم کا مستحق قرارپاتی ہیں ۔ اس کے لیے ان کی دلیل یہ ہوا کرتی ہے کہ ’’ہمارے ہاں تو جمود ہی جمود اور تقلید ہی تقلید ہے، تحقیق و ریسرچ کا کام تو ہے ہی نہیں ، یہ تو صرف مغرب ہی میں پایا جاتاہے۔ لہٰذا تحقیقاتِ مغرب کی طرف رجوع ناگزیر ہے۔‘‘ اس سے قارئین کرام یہ نہ سمجھیں کہ پرویز صاحب تقلید سے بے زار اور گریزاں تھے۔ ایساہرگز نہیں تھا، وہ بڑے پختہ مقلد تھے اور انتہائی جامد اور اندھی تقلید میں مبتلا تھے۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہ تقلید ِکہن کی بجائے، تقلید ِنوپر قائم تھے۔ وہ تقلید ِقدیم پرخوب برسا کرتے تھے مگر تقلید ِجدید کاالتزام کیا کرتے تھے۔امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی تقلید کی سخت مخالفت (بلکہ مذمت) کیا کرتے تھے۔ لیکن’امام‘ کارل مارکس ، ’امام‘ ماؤزے تنگ، ’امام‘ چارلس ڈارون اور ’امام‘ رینان کی تقلید ِجامد پر ڈٹے ہوئے تھے۔ اور وہ بھی اس حد تک کہ اگر کہیں قرآن اور ائمہ مغرب کے موقف میں غیرفیصلہ کن صورتحال (TIE) پڑ جاتی تو وہ مغرب ہی کے اماموں کی پیروی کو ترجیح دیتے ہوئے قرآن کوچھیل چھال کرکتاب اللہ کو مطابق مغرب بنانے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ قرآنی تصریحات کو وہ اپنی اُس ’عقل عیار‘ کی کسوٹی پر پرکھا کرتے تھے جو مغربیت کے سانچے میں ڈھلی ہوئی تھی اور جسے وہ اپنی ’قرآنی بصیرت‘ کانام دیاکرتے تھے۔ ان ساتوں مثالوں سے یہ واضح ہے کہ ’مفکر قرآن‘ صاحب اگرچہ نام قرآن ہی کا لیا کرتے تھے لیکن ہدایت و ضلالت کا اصل معیار اُن کے ہاں تحقیقاتِ مغرب ہی تھیں ۔ وہ صحت و سقم کی جانچ پرکھ کے لیے اپنے دل و دماغ میں رچے بسے نظریات کو قرآنِ مجیدکی کسوٹی پر پرکھنے کی بجائے اکتشافاتِ مغرب ہی کی کسوٹی پر پرکھا کرتے تھے۔اپنے قلبی معتقدات کو
Flag Counter