Maktaba Wahhabi

153 - 160
’’اس(قرآن) میں بالتصریح کہیں نہیں لکھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش بغیر باپ کے ہوئی تھی، نہ ہی یہ لکھا ہے کہ آپ یوسف کے بیٹے تھے۔‘‘ (شعلۂ مستور، ص۱۰۵) اب جب کہ قرآن سے بالتصریح یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بن باپ پیداہوئے تھے یا باپ کے ذریعہ تواس کا لازمی اور منطقی تقاضا یہی قرار پاتا ہے کہ مکمل سکوت اختیار کیاجائے۔نہ اس بات پر زور دیا جائے کہ وہ بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے اور نہ ہی اس بات پرکہ وہ باپ کے ذریعہ متولد ہوئے۔علمی دیانت بھی اسی خاموشی کو لازم ٹھہراتی ہے۔ قرآن کریم کے ایک مخلص اور خداترس طالب ِعلم کے لیے بھی صرف اور صرف یہی رویہ شایانِ شان ہے۔ نیز تقویٰ و پرہیزگاری کے علاوہ حکمت ومصلحت کے لحاظ سے بھی عافیت اسی طرزِ عمل میں ہے۔ لیکن ہمارے ’مفکر قرآن‘ صاحب نہ تو قرآن کی حدود میں رہناپسند کرتے ہیں (کہ آزادی، انسان کا ’بنیادی حق‘ ہے، جس سے محروم ہونا اُنہیں پسند نہیں ) اورنہ ہی سکوت و خاموشی اختیار کرنا چاہتے ہیں (کہ ایساکریں تو ان کی عقلِ عیار بیکار اور ان کا شغلِ قلم کاری تعطل کاشکار ہوکر رہ جاتے ہیں ) اس لیے وہ خود کو مجبور پاتے ہیں کہ قرآنی ’اَغلال و اِصر‘ سے آزاد ہوکر دنیاے مغرب کے اسلام دشمن ’محققین‘ (مثل رینان وغیرہ) کی اتباع میں ابن مریم علیہا السلام کو ’ابن یوسف‘ بنا ڈالیں اور پھر اپنی بے معنی نکتہ آفرینیوں دور ازکارموشگافیوں اور خسیس و رکیک تاویلات کے ذریعہ اپنی ہر لمحہ بدلنے والی عقلِ عیار کی خاطر قرآنِ کریم کے محکم اور اٹل حقائق کو توڑا مروڑا جائے۔ پھر حرام ہے جو کبھی ’مفکر قرآن‘ صاحب یہ سوچیں کہ قرآنی حقائق کی شکست و ریخت کے نتیجہ میں معارف القرآن جلد سوم میں اس بحث پر جو کچھ لکھ چکے ہیں ، اس کے ساتھ قدم قدم پر تضادات و تناقضات کاکس قدر وسیع و عریض خار زار پیدا ہورہا ہے۔ بس اب ان کے قلب و ذہن پر ایک ہی دُھن سوار ہے کہ واقعہ ٔ ولادتِ مسیح علیہ السلام سے معجزانہ پہلو کو زائل کردیا جائے، خواہ اس کے لیے ترجمہ آیت اور مفہوم قرآن میں مسخ و تحریف سے کام لینا پڑے یا قواعد ِزبان کو پس پشت ڈالنا پڑے یابین القوسین اضافی الفاظ کے ذریعہ مدلولاتِ آیات کا حلیہ بگاڑنا پڑے، ان کی بلا سے ؎
Flag Counter