خانگی مستقر سے اُکھاڑ کر اسے مردانہ کارگاہوں میں دھکیل دینا، خانگی زندگی میں عورت کو اس کے فطری وظائف سے منحرف کرکے اُسے قاضی و جج بلکہ سربراہِ مملکت تک کے مناصب پر براجمان کرنا وغیرہ جملہ اُمور میں سے آخر وہ کون سا امر ہے جسے’مفکر قرآن‘نے کتاب اللہ میں سے کشید کر ڈالنے میں زحمت کشی نہ کی ہو اور وہ مغرب میں پہلے سے موجود نہ ہو۔ وہ اشتراکیت جس کاچوہا جبل قرآن سے کھود نکالنے میں ’مفکر قرآن‘ نے بڑی زحمت اور مشقت اُٹھائی ہے وہ اُن کے ایسا کرنے سے بہت پہلے روس، چین اور دیگر ممالک میں موجود تھی۔ ’مفکر قرآن‘ کا اس باب میں اصل ’اجتہادی کارنامہ‘ یہ ہے کہ اُنہوں نے جو کچھ بھی پیش کیا ہے، اسے مغرب کی اصطلاحوں میں پیش کرنے کی بجائے اپنی اصطلاحوں میں پیش کیا ہے مثلاً وہ اشتراکیت کو پیش کرتے ہیں تو اس کے اصل نام کے ساتھ نہیں بلکہ ’نظام ربوبیت‘ کے نام سے پیش کرتے ہیں ۔کارل مارکس کی ’جدلی مادیت‘ کافلسفہ ان کے ہاں ’حق و باطل کی کشمکش‘ قرار پاتا ہے۔’تاریخی وجوب‘ کی قوت کو وہ ’زمانے کے تقاضے‘ کہہ دیتے ہیں ۔ اب ظاہر ہے کہ زہرہلاہل کی بوتل پر آبِ حیات کالیبل چسپاں کردینے سے زہر کی اصل حقیقت تو نہیں بدل جاتی۔ الغرض قرآنِ کریم کا بیان یہ ہے کہ رہبانیت کی ابتداء و ابتداع عیسائیوں کے ہاتھوں ہوئی تھی، لیکن ہمارے ’مفکر قرآن‘ صاحب اسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بھی پہلے کاقائم شدہ مسلک قراردیتے ہیں ۔ قرآن کے مقابلہ میں غیرقرآنی تصورات کو ترجیح دینا ’مفکر قرآن‘ کے ایمان بالقرآن کی حقیقت کو آفتابِ نصف النہار کی طرح واضح کردیتا ہے۔ ساتویں مثال: ولادت ِ عیسیٰ علیہ السلام ؛ قرآن اور ’مفکر قرآن‘ اس آخری مثال میں اس امر کاپھر جائزہ لیاجارہا ہے کہ زیر بحث معاملہ میں پرویز صاحب اپنے عقائد و تصورات کو تابع قرآن رکھتے ہیں یانہیں ؟ اس ضمن میں اُنہوں نے جو کچھ بھی لکھنا تھا وہ اپنی کتاب ’شعلۂ مستور‘ میں لکھ چکے ہیں کیونکہ باقی ہرجگہ وہ یہی فرماتے ہیں کہ جسے تفصیل درکار ہو، وہ شعلۂ مستور کی طرف رجوع کرے۔جس کاصاف مطلب یہ ہے کہ مسئلہ زیربحث میں ان کے افکار و نظریات کی آخری ترجمان یہی کتاب ہے، اس کتاب میں وہ لکھتے ہیں : |