Maktaba Wahhabi

151 - 160
ایمان قرآن پر یا غیر قرآن پر؟ یہاں پہنچ کر ’مفکر قرآن‘ جناب چودھری غلام احمد پرویز کے ایمان بالقرآن کی حقیقت کھل کرسامنے آجاتی ہے۔ ایک طرف قرآن یہ کہتا ہے کہ مسلک ِرہبانیت کے موجد عیسائی تھے۔ قبل ازیں ، اس کا وجود تک نہ تھا اور دوسری طرف ’مفکر قرآن‘ صاحب محض اپنی نرالی اُپچ کی لاج رکھنے کی خاطر یا علماے مغرب کی تقلید میں یہ کہتے ہیں کہ رہبانیت، عیسائیوں کی ایجاد نہیں بلکہ ان سے بہت پہلے یہودیوں اور مصریوں میں یہ مسلک رائج تھا۔ سوال یہ ہے کہ ایمان بالقرآن کا تقاضا کیاہے؟ قرآن کی بات مانی جائے یا غیر قرآن کی؟ فرمانِ خداوندی قابل تسلیم و اطاعت ہو یا اقوالِ علماے مغرب؟ ایک سچی اور محفوظ کتاب کی بات مانی جائے یا جعلی اور محرف کتاب کی؟ اگر قرآنی حقائق اور اکتشافاتِ مغرب میں تعارض و تضاد پایا جائے تو کسے قبول کیا جائے اور کسے ردّ کیا جائے؟ آپ جو عمل بھی یہاں اختیارکریں گے وہ آپ کے اصل ایمان و اعتقاد کو ظاہر کردے گا۔اگر قرآن کی بات مانیں گے تو آپ کے ایمان بالقرآن کی عملاً تصدیق ہوجائے گی، اگر آپ آراے علماے مغرب کو تسلیم کریں گے تو (قرآن کی بجائے) اُن پر آپ کا اعتقاد و ایمان واضح ہوجائے گا اور آراے مغرب کو شرفِ تقدم بخشنے کا آپ کا یہ عمل اُس زبانی کلامی ایمان کی تردید کرڈالے گا جو قرآن کے بارے میں آپ ظاہر کرتے ہیں ۔ فی الواقع انسان کا عملی رویہ ہی وہ معیار ہے جو یہ واضح کرڈالتا ہے کہ اس کاایمان و اعتقاد قرآن پر ہے یاغیرقرآن پر۔ حقیقت یہ ہے کہ جس قرآن کے واحد مسند اور تنہا حجت ہونے کاڈھنڈورا ’مفکر ِقرآن‘ پیٹا کرتے تھے۔ اس پر ان کازبانی کلامی ایمان ہو تو ہو، عمل کی دنیا میں خوردبین لگا کر دیکھنے سے بھی اس کے اثرات دکھائی نہیں دیتے۔ وہ اپنی عملی زندگی میں قرآن کے نہیں بلکہ مغرب ہی کے پیروکار تھے قرآن کے نام پر جو کچھ وہ عمر بھر پیش کرتے رہے ہیں ، وہ سب کچھ بغیر کسی قرآن کے مغرب میں موجود ہے۔مخلوط سوسائٹی، مخلوط تعلیم، ترکِ حجاب، مردوزن کی مطلق مساوات (بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر نظریۂ افضلیت ِاُناث)، درونِ خانہ فرائض نسواں کی بجائے اُنہیں بیرونِ خانہ مشاغل میں منہمک کرنا، تعددِ ازواج کو معیوب قرار دینا، عورت کو
Flag Counter