Maktaba Wahhabi

150 - 160
قرآنِ مجید سے ان چاروں باتوں کا کہیں سراغ نہیں ملتا اورملے بھی کیسے جبکہ یہ ساری داستانِ زُور تقریباً دو ہزار سال بعد ’مفکر ِقرآن‘ کے سامری دماغ نے خود تراشی ہے، اس کے لیے سارا مواد محرف انجیلوں اور ان مغربی دانشوروں کی اَہوا سے ماخوذ ہے جن کی ذہنی غلامی اور فکری اسیری میں وہ مبتلا تھے، کیونکہ از روے قرآن نہ تو حضرت مریم علیہا السلام راہبہ تھیں (کیونکہ رہبانیت اس کے بعد پیروانِ مسیح کی ایجادتھی) اورنہ ہی والدۂ مریم علیہا السلام کے ذہن میں اُنہیں نذر ِ ہیکل کرتے وقت یہ خیال تھا کہ وہ تجرد کی زندگی بسر کرے گی اور اس کی اولاد نہیں ہوگی بلکہ اس کے برعکس اُن کی اَزدواجی زندگی اور پھر اس کے نتیجہ میں اُن کی ذرّیت کا شعور رکھتے ہوئے ہی وہ اپنی دعاء اِعاذہ میں اُن کا ذکر کررہی تھیں : ﴿إنِّیْ اُعِیْذُھَا بِکَ وَذُرِّیَتَھَا مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ﴾(آل عمران:۳۶) نیز نہ ہی ازروے قرآن اُس وقت رہبانیت کا نظام رواج پذیر تھا کیونکہ اس نظامِ رہبانیت کی ابتدا وابتداع، بعد میں پیروانِ مسیح کے ہاتھوں ہوئی تھی۔ چنانچہ خود ’مفکر قرآن‘ صاحب مفہومِ آیات کے نام سے الفاظ کا جو کباڑخانہ پیش کیا کرتے تھے، ان میں بھی اس مسلک کو متبعین عیسیٰ علیہ السلام کا ایجاد کردہ مسلک قرار دیا گیا ہے: ’’پھر ہم نے ان کے بعد انہی کی نہج پر اور رسول بھی بھیجے اور (سلسلۂ بنی اسرائیل میں ) سب سے پیچھے عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کوبھیجا اور اسے انجیل دی۔جو لوگ اس کی پیروی کرتے تھے ان کے دل میں خلق خدا کے لیے شفقت اور ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور ہمدردی کے جذبات پیداکردیئے (یعنی عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیم کایہ نتیجہ تھا)۔باقی رہا مسلک ِرہبانیت (خانقاہیت) جسے تم اس وقت ان کے ہاں مروّج دیکھتے ہو تو اسے اُنہوں نے از خود وضع کرلیاتھا۔‘‘ (مفہوم القرآن: ج۳/ ص۱۲۸۴) مزید برآں رہبانیت کی بابت واقع لفظ ابتدعو کے مادہ (ب دع) کے متعلق خود پرویز صاحب کی تحقیق یہ ہے کہ ’’البدع وہ کام جو پہلے پہل ہواہو اور اس سے پہلے اس کی مثال موجود نہ ہو۔(ابن فارس) وہ رسی جسے پہلی بار نئے ریشے سے بٹا گیاہو۔ ’’ركية بديعة‘‘ نیاکھودا ہواکنواں ۔ نواب صدیق حسن خاں نے لکھاہے کہ جن الفاظ میں با کے ساتھ دال آئے، ان میں ابتداء اور ظہور کامفہوم مضمر ہوتا ہے۔‘‘ (لغات القرآن: ج۱/ ص۳۰۲)
Flag Counter