Maktaba Wahhabi

149 - 160
نزدیک ایک راہبہ کا اس طرح کا نکاح، نکاح ہی نہیں قرار پاسکتا تھا، اس لیے اُس کی اولاد کس طرح مستحسن نظروں سے دیکھی جاسکتی تھی۔‘‘ (شعلۂ مستور: ص۱۱۴) اس اقتباس کے پہلے ہی جملے میں واقع لفظ ’راہبہ‘ کے تحت حاشیہ میں ’مفکر قرآن‘ صاحب لکھتے ہیں : ’’خانقاہیت کی زندگی مذہب ِعیسویت کی ایجاد نہیں ۔اس کے آثار اس سے پہلے یہودیوں کے ہاں بھی موجود تھے اور مصریوں میں بھی۔خود حضرت مریم علیہا السلام کی ابتدائی زندگی کے حالات اس پر شاہد ہیں کہ یروشلم کے ہیکل میں راہب اور راہبات ہوتی تھیں ۔ یہ تارک الدنیا لوگ، عبادت میں مصروف رہتے اور انبیاے یہود کی پیشینگوئیوں کے تحت ایک آنے والے مسیح کا انتظار کرتے۔‘‘ (شعلۂ مستور: حاشیہ برصفحہ ۱۱۴) ’مفکرقرآن‘کی اس داستانِ زُور کے نتیجہ میں چونکہ حضرت مریم علیہا السلام ایک راہبہ کی زندگی بسر کررہی تھیں اور پھر چونکہ ایک راہبہ کی زندگی چھوڑ کر ’’متاہل زندگی اختیار کرلینا، مشرب خانقاہیت میں ارتداد سے کم نہ تھا۔‘‘ اس لیے ’’اس طرح کا نکاح، نکاح ہی قرار نہیں پاسکتا تھا۔‘‘ لہٰذا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت اس پرویزی کہانی کی بدولت بھی ویسی ہی غیرمستحسن تھی جیسی یہود کے ہاں تھی۔ فرق اگر ہے تو یہ کہ یہودنے براہِ راست حضرت مریم علیہا السلام پر الزام لگایا اور ’مفکر قرآن‘ نے اپنی خود ساختہ کہانی کی بنا پر بالواسطہ یہی الزام عائد کیا۔ پرویزی داستان میں ’غیر قرآنی اجزا‘ بہرحال’مفکر قرآن‘ کی من گھڑت کہانی میں کم از کم مندرجہ ذیل چار اجزا وہ ہیں جو قرآن میں ہرگز ہرگز مذکور نہیں ہیں : 1. ایک تو یہ کہ مریم علیہا السلام راہبہ کی زندگی گزار رہی تھی۔ 2. ثانیاً یہ کہ رہبانیت حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پہلے وجود پذیر تھی۔ 3. ثالثاً یہ کہ حضرت مریم علیہا السلام ایسی راہبہ کی زندگی گزار رہی تھیں جن کو ساری عمر تجرد میں گزارنا تھی۔ 4. رابعاً یہ کہ رہبانیت کی زندگی چھوڑ کر عائلی زندگی گزارنے پریہودی اُنہیں موردِطعن و تشنیع قرار دیتے تھے۔
Flag Counter