اللہ تعالیٰ اپنے نظائر (قدرت)تم کودکھلاتے ہیں اس توقع پر کہ تم عقل سے کام لیا کرو (اور ایک نظیر سے دوسری نظیر کے انکار سے باز آؤ)۔ (تفسیرمعارف القرآن از مفتی محمد شفیع: رحمۃ اللہ علیہ ج۱/ص۲۴۶) حقیقت یہ ہے کہ اگرچہ ’مفکر قرآن‘ کا کسی ’تاریخی انکشاف‘ کاانتظار بھی کوئی خوشگوار موقف نہیں ہے لیکن اس کی بجائے اپنے قیاس و گمان پرمبنی موقف کو الفاظ کابے تحاشا اسراف کرتے ہوئے لفاظی اور وہم و گمان کے مرکب کی شکل میں ’مفہوم القرآن‘ کے نام سے پیش کرنا اس سے بھی بدتر عمل ہے۔اعاذنا اللّٰه من ذلک! یہ بحث اور یہ واقعہ بھی ’مفکر ِقرآن‘ کے ایمان بالقرآن کی حقیقت کو بے نقاب کر ڈالتا ہے۔ چھٹی مثال: رہبانیت ِمریم کی بابت خود ساختہ داستانِ پرویز یہود بے بہبود نے حضرت مریم علیہا السلام پر نہایت شرمناک الزامات لگائے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو (معاذ اللہ، ثم معاذ اللہ، نقل کفر کفر نباشد) براہِ راست ولد الزنا قرار دیا لیکن اس کے مقابلہ میں ’مفکر قرآن‘ نے اپنی ایک من گھڑت داستان کی رُو سے حضرت مریم علیہا السلام پر یہی الزام بالواسطہ اس طرح عائد کیا : ’’حضرت مریم علیہا السلام ایک راہبہ کی زندگی بسر کررہی تھیں جسے دنیاوی علائق سے کچھ واسطہ نہیں ہونا چاہئے تھابلکہ ساری عمر تجرد میں گزاردینی چاہئے تھی۔آپ کوخدا کی طرف سے اشارہ ملا کہ اُنہیں متاہل زندگی بسر کرنی ہوگی کیونکہ اُنہیں ایک عظیم الشان رسول کی امین بننا ہے۔ اس طے شدہ اَمر (اَمْرًا مَقْضِیًّا) کے مطابق حضرت مریم علیہا السلام نے خانقاہ کی زندگی چھوڑ کر عائلی زندگی اختیارکی، لیکن یہودیوں کے نزدیک یہ کوئی چھوٹا جرم نہ تھا۔ ایک راہبہ کی زندگی چھوڑ کر متاہل زندگی اختیار کرلینا، مشربِ خانقاہیت میں اِرتداد سے کم نہ تھا۔ اس کے ساتھ ہی اس جذبۂ انتقام اور شکست ِپندار کو بھی ملحوظ رکھئے جو حضرت مریم علیہا السلام کی اس روش سے اُن کے دلوں میں پیدا ہوا تھا کہ اُنہوں نے ہیکل کے پجاریوں میں سے کسی کے ساتھ شادی نہیں کی اور ہیکل سے باہر ایک دوسرے شخص سے شادی کرلی۔ ان وجوہات کی بنا پر اُنہوں نے حضرت مریم علیہا السلام کو موردِ طعن و تشنیع بنایا اور اپنے جوشِ انتقام میں ، اس پیکر ِعفت و عصمت کے خلاف طرح طرح کے الزامات تراشے: ﴿وَقَوْلِھِمْ عَلٰی مَرْیَمَ بُھْتَانًا عَظِیْمًا﴾(النساء:۱۵۶) یعنی ان کے |