دو۔ (چنانچہ جو مجرم تھا، وہ جب لاش کے قریب پہنچا تو خوف کی وجہ سے اس سے ایسے آثار نمایاں ہوگئے جو اس کے جرم کی غمازی کرنے کے لیے کافی تھے) اس طرح اللہ نے اس قتل کے راز کو بے نقاب کردیا اورمجرم سے قصاص لے کر موت کو زندگی سے بدل دیا کیونکہ قصاص میں قوم کی حیات کاراز پوشیدہ ہوتا ہے۔(۲/۱۷۹) اللہ اس طرح اپنی نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم عقل و شعور سے کام لے کر ایسے معاملات کو سلجھایا کرو اور اس حقیقت کوسمجھ لو کہ نفسیاتی تغیرسے (افراد سے آگے بڑھ کر)کس طرح خود قوموں کی حالت بدل جاتی ہے۔‘‘ (مفہوم القرآن:ص۲۵) قرآنی الفاظ کے اختصارکوبھی دیکھئے اور پھر انہی الفاظ کے مفہوم کے طول وعرض کو بھی اور سوچئے کہ اگر یہی قرآنی مفہوم ہے تو کیا عرب کے اَن پڑھ اور سادہ مزاج بدؤوں کے حاشیۂ خیال میں بھی یہ مفہوم آسکا ہوگا جبکہ اس مفہوم سے خود ’مفکر قرآن‘ بھی بایں علم و دانش اور حکمت و فضیلت ۱۹۳۵ء تک محروم تھے۔ پھر اس ’مفہوم القرآن‘ کو اس پہلو سے بھی دیکھئے کہ اس میں کس قدر قرآنی الفاظ کی رعایت پائی جاتی ہے اورکس قدر ’مفکر قرآن‘ کے اپنے قیاس وگمان کادخل ہے۔ پھر یہ کہ قیاس و گمان اور لفاظی کایہ مرکب ایک سادہ اور عام فہم عرب کو قرآن سے قریب تر کرے گا یا بعید تر؟ یہ ہرشخص خود محسوس کرسکتا ہے۔ پرویز صاحب کے اس ’مفہوم القرآن‘ کے مقابلہ میں مندرجہ ذیل مفہوم آیات کو بھی ملاحظہ فرمائیے جسے قرآنی الفاظ کی حدود میں رہ کر اس خوبی سے پیش کیاگیا ہے کہ قرآنی ترجمہ اور شرحِ مفہوم میں ربط و ہم آہنگی نمایاں ہوجاتی ہے اور عبارت بھی الفاظ کے اِسراف و تبذیر سے قطعی پاک ہے: ’’اور (وہ زمانہ یادکرو) جب تم لوگوں (میں سے کسی) نے ایک آدمی کاخون کردیا پھر (اپنی براء ت کے لئے) ایک دوسرے پرڈالنے لگے اور اللہ کو اس امرکاظاہر کرنامقصود تھا جس کو تم (میں سے مجرم و مشتبہ لوگ) مخفی رکھناچاہتے تھے۔ اس لیے (ذبح بقرہ کے بعد) ہم نے حکم دیاکہ اس (مقتول کی لاش) کو اس (بقرہ) کے کوئی سے ٹکڑے سے چھو دو (چنانچہ چھوانے سے وہ زندہ ہوگیا۔ آگے اللہ تعالیٰ بمقابلہ منکرین قیامت کے اس قصہ سے استدلال اورنظر کے طور پر فرماتے ہیں کہ ) اسی طرح حق تعالیٰ (قیامت میں ) مردوں کو زندہ کردیں گے اور |