اُٹھی اور ظن و تخمین اور گمان و تخریص پر مبنی ایک خالص قیاسی تفسیر بایں الفاظ صفحۂ قرطاس پر مرتسم ہوگئی : ’’ہم جو کچھ سمجھ سکے ہیں ، وہ یہ ہے کہ توہم پرستیوں سے لوگوں کی نفسیاتی حالت یہ ہوجاتی ہے کہ وہ ذرا سے خلافِ معمول واقعہ کا سامنا نہیں کرسکتے اور اس کے احساس سے ان پرلرزہ طاری ہوجاتا ہے۔ یہی کیفیت بنی اسرائیل کی ہوچکی تھی اور واقعۂ قتل میں ان کی نفسیاتی حالت کو تحقیق مجرم کا ذریعہ بنایا گیا ہے۔ ان سے کہا گیا کہ مشتبہ ملزموں میں سے ایک ایک شخص، لاش کے قریب سے گزرے اور لاش کا کوئی حصہ اُٹھاکر اس شخص کے جسم سے چھوا جائے، ملزم کی پہچان ہوجائے گی۔ ظاہر ہے کہ اس سے مجرم کی جو حالت ہوئی ہوگی، وہ اس کے داخلی احساسات کی غماز بن گئی ہوگی۔ اس طرح جب مجرم کاتعین ہوگیا تو اس سے قصاص لے لیا گیا۔ قرآن نے قصاص کے متعلق کہا ہے کہ اس میں رازِ حیات ہے۔ یہ بہرحال ہمارا قیاس ہے حقیقت اس وقت ہی سامنے آئے گی جب تاریخی انکشافات اس کی نقاب کشائی کریں گے۔‘‘ (برقِ طور:ص۱۹۰،۱۹۱) پھر اس’قیاسی تفسیر‘ کو جس کے متعلق خود اُن کا اپنا اعتراف ہے کہ ’’یہ ہمارا قیاس ہے۔‘‘ عین مفہوم قرآن بناکر یوں پیش کرتے ہیں : ’’ایک طرف تمہاری یہ حالت کہ ایک جانور کو ذبح کرنے میں اس قدر حیل و حجت اوردوسری طرف یہ عالم کہ ایک انسانی جان ناحق لے لی اوراسے خفیہ طور پر مار دیا اور جب تفتیش شروع ہوئی تو لگے ایک دوسرے کے سر الزام تھوپنے یعنی تم میں اتنی اخلاقی جرات بھی نہ تھی کہ جرم ہوگیاتو کھلے بندوں اس کااعتراف کرلیتے، لیکن جس بات کوتم چھپانا چاہتے تھے، خدا اُسے ظاہر کردینا چاہتا تھا تاکہ جرم بلاقصاص نہ رہ جائے۔ مشرکانہ توہم پرستیوں سے جن میں تم مبتلا ہوچکے تھے، انسان کی نفسیاتی کیفیت یہ ہوجاتی ہے کہ اسے کسی ذرا سی خلافِ معمول بات کا سامنا کرنا پڑے تو اس پر لرزہ طاری ہوجاتا ہے۔ (۲۲/۳۱) چونکہ خدا تمہاری اس نفسیاتی کیفیت سے واقف تھا، اس نے قاتل کاسراغ لگانے کے لیے ایک نفسیاتی ترکیب بتائی ( جوانسان کی اُس زمانے کی ذہنی سطح کے اعتبار سے بڑی خلافِ معمول تھی) اُس نے کہا: تم میں سے ایک ایک جاؤ اوراپنے حصہ جسم کو لاش کے ساتھ لگا |