Maktaba Wahhabi

145 - 160
اس کے جرم کی سزا دے دی گئی۔ تفسیر قرآن میں اَحوط و انسب رویہ لیکن پرویز صاحب نے اس آیت کی تفسیر میں علماء کے اس تفسیری موقف کو نظر انداز کرکے ایک ایسی بات کہی ہے جو کسی حد تک ان کے اَنسب و احوط رویہ کی غماز ہے۔ وہ فرماتے ہیں : ’’اضربوہ ببعضھاکی تفسیر میں اتنا کچھ لکھا گیا ہے کہ خواب کثرتِ تعبیر سے پریشان ہوگیا ہے لیکن بایں ہمہ بات ویسی کی ویسی ہی مشکل رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک تاریخی واقعہ ہے اور اس کا صحیح مفہوم تاریخی انکشافات کی روشنی میں ہی متعین ہوسکتاہے جس طرح فرعون کی لاش کے محفوظ رکھے جانے کا بیان ایک تاریخی واقعہ تھا۔ صدیوں تک اس آیت کی تفسیر میں مختلف قیاس آرائیاں ہوتی رہیں لیکن جب تاریخ نے اپنے چہرہ سے نقاب اُٹھایا تو مصر کے تہہ خانہ میں اس آیت کی تفسیر مجسم نظر آگئی۔ اسی طرح محولہ صدر واقعہ بھی تاریخ سے متعلق ہے قیاس آرائیوں سے اس کا صحیح مفہوم متعین نہیں ہوسکتا۔ یہ آیت بھی ابھی متشابہات کی فہرست میں ہے، تاریخ اپنا کوئی اور ورق الٹے گی تو اس وقت یہ آیت محکمات کی فہرست میں منتقل ہوجائے گی۔ قرآنی حقائق و معارف زمانہ کے شکن درشکن گیسوؤں میں لپٹے ہوئے ہیں ۔ علم انسانی کی نسیم سحری جوں جوں ان پیچوں کو کھولتی جاتی ہے یہ گوہر آبدار حسین آویزوں کی طرح وجۂ درخشندگی عالم ہوتے جاتے ہیں ۔‘‘ (معارف القرآن: ج۳/ ص۳۵۶) یہ تفسیری موقف پرویز صاحب نے ۱۹۳۵ء میں اختیار کیاتھاجس کے تحت ایسی آیات کومتشابہات میں سمجھتے ہوئے اس کی تفسیر کو یہ کہہ کر معرضِ اِلتوا و انتظار میں ڈال دیا تھا کہ ’’جب تک تاریخ اس طرح کی کوئی مجسم تفسیر پیش نہیں کردیتی جیسی کہ فرعون کے بدن کو محفوظ رکھنے والی آیت میں پیش کی گئی ہے، اس وقت تک اسے متشابہات میں سے ہی سمجھا جائے گا۔‘‘نیز اُنہوں نے یہ بھی فرمایا تھاکہ ’قتل نفس‘کے زیر بحث واقعہ میں بھی ’قیاس آرائیوں ‘ سے اس کامفہوم متعین نہیں ہوسکتا۔ کاش! ’مفکر قرآن‘ اپنے اس اُصول پرقائم رہتے اور تفسیرقرآن میں اپنی رائے، ظن اور گمان کودخیل نہ بناتے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے بعد ان کی فضاے دماغی میں ایک لہر
Flag Counter