Maktaba Wahhabi

144 - 160
اسیری کے باعث اُنہوں نے اپنے قلب و دماغ میں راسخ کررکھے ہیں اور اب ان ہی کی تائید کے لیے ایک طرف وہ تفسیر قرآن کی آڑ میں حد ِتحریف کو پہنچی ہوئی رکیک و خسیس تاویلات کے درپے رہتے ہیں اور دوسری طرف مصری کتبات، آثارِ قدیمہ کی تحقیقات اور مزید تاریخی انکشافات کے منتظر رہتے ہیں جو اُن کے نزدیک قرآن سے بھی بڑھ کر قطعی الثبوت ہیں تاکہ ان کی روشنی میں تقتیل ابناء والی قرآنی آیات کے مفہوم کو متعین کیا جاسکے، حالانکہ تاریخ اور قرآن کی حیثیت کو بہ تکرار و اعادہ وہ یوں بیان کیاکرتے ہیں کہ ’’تاریخ بہرحال ظنی ہے اور اس کے مقابلہ میں قرآن ایک یقینی شہادت ہے۔‘‘ (طلوعِ اسلام، نومبر ۱۹۶۵ء، ص۴۹) لیکن یہاں ہم دیکھ رہے ہیں کہ’مفکر قرآن‘ جو ہمیشہ عقل و دانش کی روشنی میں قرآن کی تفسیر قرآن ہی سے کرنے کے مدعی رہے ہیں قرآن کی قتل اطفال اور ذبح ابناء بنی اسرائیل سے متعلقہ آیات (جوقرآن ہونے کی بنا پرقطعی اوریقینی ہیں ) کی تفسیر تاریخی آثارِ مصر سے کرنا چاہتے ہیں جن پرسے اٹھنے والے پردوں کے بعد بھی جو کچھ سامنے آئے گا، وہ بہرحال ظنی ہی ہوگا۔ پانچویں مثال: واقعہ قتل نفس اور ذبح بقرہ سورۃ البقرۃ میں ذبح البقرہ کے واقعہ کے ضمن میں قتلِ نفس کا واقعہ بایں الفاظ مذکور ہے : ﴿وَاِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادّٰرَئْ تُمْ فِیْھَا وَاللّٰه مُخْرِجٌ مَّا کُنْتُمْ تَکْتُمُوْنَ فَقُلْنَا اضْرِبُوْہُ بِبَعْضِھَا کَذٰلِکَ یُحْیِ اللّٰه الْمَوْتیٰ وَیُرِیْکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ﴾ ’’اور تمہیں یاد ہے وہ واقعہ جب تم نے ایک شخص کو مار ڈالا تھا، تب اس ضمن میں باہم جھگڑے اور ایک دوسرے پر الزام قتل تھوپنے لگے اور اللہ اُس امر کو کھولنے والا تھا جسے تم چھپا رہے تھے۔ تب ہم نے کہا: لاشِ مقتول کو اس کے ایک حصے سے ضرب لگاؤ، دیکھو! اللہ یوں اپنی نشایاں دکھاتے ہوئے لوگوں کو زندگی بخشتا ہے تاکہ تم سمجھ سے کام لو۔‘‘ (البقرۃ:۷۲،۷۳) اس آیت کی تفسیر میں قریب قریب جملہ علماے تفسیر نے یہ لکھا ہے کہ جس گائے کو ذبح کرنے کا حکم اس سے متصل پہلی آیات میں دیا گیا ہے، اسی کے گوشت کو مقتول کی لاش کے ساتھ لگانے کاحکم دیاگیا ہے: فَقُلْنَا اضْرِبُوْہُ بِبَعْضِھَا(البقرۃ:۷۳) اس کے نتیجہ میں مقتول کچھ دیر کے لیے زندہ ہوا اور اپنے قاتل کا نام بتا کر ہمیشہ کے لیے پھر موت کی نیندسوگیا اور قاتل کو
Flag Counter