Maktaba Wahhabi

143 - 160
ہیں ‘‘ (مثلاً یہی قتل ابناے بنی اسرائیل کے واقعات) لہٰذا ناقابل قبول ہیں ۔لیکن دوسری طرف توراتِ محرفہ کے جن واقعات کو وہ اپنے منسوب الی القرآن تصورات کے موافق پاتے ہیں اُنہیں وہ ہاتھوں ہاتھ قبول کرلیتے ہیں (مثلاً نظامِ یوسفی میں اقتصادی نظام) پھر اُس وقت نہ تورات اُنہیں تحریف شدہ نظر آتی ہے اور نہ ہی ساقط الاعتبار۔ پھر ’مفکر قرآن‘ صاحب کا یہ دو رُخا پَن بھی ملاحظہ فرمائیے کہ قرآنِ کریم اگر یہ کہہ دے کہ’’فرعون ابناے بنی اسرائیل کو قتل اور ذبح کیا کرتاتھا اور ان کی خواتین کو زندہ رکھاکرتا تھا۔‘‘ تو یہ قرآنی بیان ’مفکر قرآن‘ کے لیے قابل قبول نہیں ہے اور اسے مردود قرار دینے کے لیے یہ فرماتے ہیں کہ ’’یہ تورات جیسی ساقط الاعتبار کتاب سے ماخوذ تصور ہے۔‘‘ لیکن دوسری طرف وہ خود ایک ایسی ہی حقیقت کو جب اہل کتاب کی مذہبی کتابوں سے پیش کرتے ہیں تو بغیر کسی تردد، دغدغہ، تامل اور حیل و حجت کے ’حقیقت ِواقعہ‘ قرار دے کر قبول کرتے ہیں ، چنانچہ وہ لکھتے ہیں : ’’انجیل متی میں یہ بھی مذکور ہے کہ ہیرودلیسس نے بیت اللحم اور اس کی سرحدوں کے تمام بچوں کو جن کی عمر دو برس یا اس سے کم تھی، قتل کردیا تھا۔‘‘ (شعلہ مستور: حاشیہ بر ص۱۶) غور فرمائیے، انجیل متی کی سند پر ہیرودلیسس کا قتل اطفالِ مسلّم ومعتبر ہے لیکن قرآن کی سند پر قتل اطفال بنی اسرائیل غیر مسلّم ہے : شعور و فکر کی یہ کافری معاذ اللہ! ایک قابل غور امر قرآنِ کریم نے ابناے بنی اسرائیل کی ہلاکت کے سلسلہ میں تقتیل اور تذبیح کے الفاظ استعمال کئے ہیں جو قتل اور ذبح کے الفاظ سے نکل کر باب تفعیل سے تعلق رکھتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے قتل یا تقتیل (جس کے ’مفکر قرآن‘ نے چھ معانی کے چوہے جبل لغات سے کھود نکالے ہیں ) کی وضاحت ذبح (یا تذبیح) کے لفظ سے فرمادی ہے، جس کاواحد معنی ’جان سے مارڈالنا‘ ہی ہے۔ ’مفکر ِقرآن‘ اس خدائی وضاحت کو نظر انداز کرڈالتے ہیں کیوں ؟ کس لئے؟ صرف اور صرف اس لیے کہ اُنہیں اپنے’مزعومات‘ قرآنی حقائق کی نسبت زیادہ عزیز و محبوب ہیں ۔ یہ ’مزعومات‘ دراصل وہ تصورات ہیں جو مغرب کی ذہنی غلامی اور فکری
Flag Counter