کہ اکیلا ہی تمام اختیارات کا سرچشمہ بناہواہے۔ عوام نے بادشاہ پر دباؤ ڈالنا شروع کیا کہ اختیارات کی تقسیم ہونی چاہئے۔ اس طرح جمہوریت کے نظام کی ابتدا شرک سے ہوئی لیکن ارسطو کے بقول ’’جمہوری حکومت انبوہِ گروہی اور جاہلوں کی حکومت ہے جس میں لاقانونیت اور افراتفری کا دور دورہ ہوتا ہے۔ہر شخص اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے کوشاں ہوتا ہے۔ ارسطو کے نزدیک یہ بدترین نظام حکومت ہے۔‘‘ (’نظری سیاست‘ ازشاہ فرید الحق) اسلام کو پیوندکاری کی ضرورت نہیں خودساختہ نظام ہائے حکومت زندگی کے کسی ایک شعبہ کی اصلاح پر زور دیتے ہیں لیکن اُن میں دوسرے شعبوں کی اصلاح و بہتری کا تصور سرے سے موجود نہیں ہوتا جبکہ اسلام خالق کائنات کا ایسا جامع نظام حیات ہے جو عبادات سے لے کر معاملات تک، ملکی اُمور سے لے کر بین الاقوامی اُمور طے کرنے میں ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ علم سیاسیات کی کوئی کتاب اُٹھاکر دیکھ لیں ، دیگر نظاموں کی جو ایک آدھ خوبی بیان کی جاتی ہے، اس کے بعد اس نظام کی خامیوں کا تذکرہ ضرور ملے گا۔اسلام اللہ ذوالجلال کا نازل کردہ نظام ہے جس میں دیگر نظاموں کی تمام خوبیاں تو بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں اورکسی خامی کا تصور ناممکن ہے۔ اس لیے اسلامی نظام کے ساتھ جدید، فلاحی، ترقی پسند، سوشلسٹ اور جمہوریہ کی پیوندکاری کرنے کی ضرورت نہیں ، کیونکہ کسی ایک قدر کے مشترک ہونے کی بنا پر خود ساختہ نظام کو اسلامی نہیں کہہ سکتے۔ آج سے چودہ سو سال قبل ربّ کائنات کی طرف سے جواحکامات امام کائنات صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئے، وہ ہمارے لیے آج بھی تروتازہ ہیں جن پر عمل پیرا ہونا ہم باعث ِاعزاز سمجھتے ہیں ۔ اسی لیے غیر ہمیں بنیادپرست اورقدامت پسند کہتے ہیں ۔اس کے باوجود اسلام جدت و ترقی پسند مذہب بھی ہے، اس لیے کہ قیامت تک پیش آمدہ مسائل کے حل کے لیے کتاب وسنت کی روشنی میں اہل حل و عقد کے لیے اجتہاد کا دروازہ کھلا ہے۔ اسلام کا فلاحی نظام ایساہے جو بلاامتیاز رنگ و نسل اور مذہب و ملت سب کی معاشی و رفاہی |