عوامی حکومت کا دم بھرنے والو!جب عوام اپنے نفع و نقصان کے لیے نظام قدرت میں دخل نہیں دے سکتے تو وہ کائنات کا نظام چلانے کے لیے ضابطے کیسے مرتب کرسکتے ہیں ۔ یقینا حاکمیت کا سرچشمہ ربّ ذوالجلال ہے جس کی بادشاہی ارض وسماوات پر چھائی ہوئی ہے جس کا حکم سب کے حکموں پر غالب ہے۔ فرعون کے آرڈر پر اُس کے چیلے بنی اسرائیل کے نومولود بچوں کو قتل کرتے رہے کہ موسیٰ پیدانہ ہو۔ لیکن ربّ ذوالجلال والاکرام نے نہ صرف موسیٰ علیہ السلام کو پیدا کیا بلکہ فرعون کے گھر پال کر اپنا حکم غالب کردیا۔ اس لئے اللہ کی دھرتی اور اللہ کی مخلوقات پر اللہ کا نظام اور قانون چلنا ہی عین انصاف ہے۔ قرآنِ مجید میں ارشاد ہے: ﴿ان الحکم الا ﷲ﴾ (یوسف:۴۰) ’’اللہ کے سوا کسی کاحکم نہیں (چلتا)۔‘‘ یقینااللہ کے حکم کے بغیردرخت کا پتہ بھی حرکت نہیں کرسکتا تو عوام کی حکومت کادعویٰ کیسے تسلیم کیا جاسکتا ہے۔ ’عوام کے ذریعے‘ یا’قرآن و سنت کے ذریعے‘ جمہوری حکومت میں عوام کثرت رائے کی بنیاد پر جس طرح چاہیں ، آئینی و قانونی ضابطے بنائیں یا پہلے سے طے شدہ اُمور کو بحث طلب بناکر ردّوبدل کریں ۔ حلال کو حرام قرار دیں یا حرام کو حلال جس طرح ڈنمارک وغیرہ میں عورتوں کی جگہ لڑکوں سے نکاح کرنے کاقانون پاس ہوا اور کوئی روک ٹوک نہیں ۔ قانونی طور پر وہ بااختیار ہیں ۔ اسلامی جمہوری ملک میں کوئی سود کی کمائی سے عیش و عشرت کی زندگی گزاررہاہو۔ شراب پی کرکلب میں ڈانس کرکے اپنا غم غلط کرنے کی کوشش کررہا ہو، کوئی غیراللہ کے نام پر ذبح کئے ہوئے حلال جانور یا خنزیر کا گوشت کھارہا ہو، خواہ کوئی آوارہ فحش فلمیں دیکھ کر شیطانی قہقہے مار رہا ہو۔ جب تک اس ملک کی پارلیمنٹ کثرتِ رائے سے اُن کو قانونی طور پر جرم قرار نہیں دیتی اُس وقت تک ایسے مذموم اُمور قانون کی نظروں میں جرم نہیں بن سکتے۔ قرآنِ حکیم اسلامی حکومت کا دستور ہے جس میں خالق کائنات نے بنی نوع انسان کی بھلائی کے لیے سُود مند اشیا کو حلال اور ضرر رساں چیزوں کو حرام کردیاہے۔ اللہ نے ہی اپنی مخلوق کو صراطِ مستقیم پر گامزن ہونے اور طاغوتی راستوں سے بچانے کے لیے خاتم النّبیین صلی اللہ علیہ وسلم |