کرنے کے لئے عوام کی نمائندگی کا نام ہے۔ یعنی حکومت چلانے والے افراد عوامی نمائندے (representatives) ہوتے ہیں جن کا مقصد حصولِ لذت کی ذہنیت کا عموم اور عوام کی خواہشات کی تسکین کے لئے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کرنا ہوتا ہے۔ یہی عوامی نمائندگی جمہوریت کی حقیقت ہے جہاں مفاد ات ہی وہ پیمانہ ہیں جس پر ریاست و جمہور کے تعلق کو پرکھا جاتا ہے۔ حاکم و محکوم کے درمیان یہی رشتہ ہے، قیادت اور عوام کے مابین یہی میثاقِ وفا ہے۔ جو اسے پورا کرے، اس کی حمایت کی جا تی ہے اور جو عوام کی جھولی کو مراعات و سہولیات سے نہ بھر سکے، اس کا عمل قابل اتباع نہیں ہوتا۔ سارا جمہوری فلسفہ، اس چھتری کے تحت قائم ادارے اور این جی اوز وغیرہ اسی عقیدے کے فروغ کا وسیلہ ہیں ۔ جمہوریت کا معنی ہی یہ ہے کہ فیصلے عوام کی مرضی اور خواہشات کی بنا پر ہونے چاہئیں ، گویا اس کا مطلب خیرو شر کا منبع انسانی خواہشات کو مان لینا ہے۔ اس کے مقابلے میں اسلامی ریاست میں عوام رعایا (subject) ہوتے ہیں اور خلیفہ عوام الناس کا نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سیاسی نائب ہوتا ہے جس کی ذمہ داری عوام الناس کی خواہشات کو شریعت کے تابع کرنے کی ذہنیت عام کرنا ہوتا ہے، نہ یہ کہ خود عوام کی خواہشات کے پیچھے چلنا۔ اِسی معنی میں جو ریاست جتنی زیادہ جمہوری ہوتی ہے، اتنی ہی غیر اسلامی ہوتی ہے۔ گویاجمہوریت میں پیری مریدی کا تعلق ہی اُلٹ جاتا ہے ، یہاں عوام بجائے مرید کے پیر (فیصلہ کرنے اور ہدایت دینے والے) بن جاتے ہیں اور حاکم جس کا کام لوگو ں کی رشدوہدایت کا انتظام کرنا ہوتا ہے، اس معنی میں مرید بن جاتا ہے کہ ہر کام سے پہلے عوام الناس کی خواہشات کی طرف دیکھتا ہے۔ لوگوں نے ووٹ کو بیعت کا متبادل سمجھ لیا ہے حالانکہ ووٹ توبیعت کی عین ضد ہے۔ بیعت کا مطلب حصولِ ہدایت کے لئے عوام کا اپنے نفس کو کسی بلند تر ہستی کے سپرد کردینا ہے جبکہ ووٹ کا معنی عوام کی حکمرانی قبول کرکے حاکم کا خود کو ان کے نفس کے سپرد کردینا ہے۔ علم اسلامی میں خیروشر کی تعیین میں عوام کی خواہشات اور اس کی کثرت کی کوئی شرعی حیثیت ہے ہی نہیں بلکہ خلافت میں فیصلے اس بنیاد پر ہوتے ہیں کہ کسی معاملے میں شارع کی منشا و رضا حاصل کرنے کا طریقہ کیا ہے اور ظاہر ہے، یہ طے کرنے والے علماء ہی ہوتے ہیں |