تاریخ وسیر ترجمہ: مولانا عبد الرزاق ملیح آبادی ائمہ فقہا رحمۃ اللہ علیہ کی علم پروری اور معاشی معمولات حصول علم کیلئے امام شافعی کا سفر امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ سفر نامہ ان کے مشہور شاگرد ربیع بن سلیمان نے روایت کیا ہے اور یہاں ابن حجہ کی کتاب ثمرات الأوراق طبع مصر سے ترجمہ کیا گیا ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:مکہ سے جب میں روانہ ہوا تو میری عمر چودہ برس کی تھی، منہ پر ابھی سبزہ نمودار نہیں ہوا تھا، دویمنی چادریں میرے جسم پر تھیں ۔ ذی طویٰ پہنچا توایک پڑاؤ دکھائی دیا، میں نے صاحب سلامت کی۔ ایک بڑے میاں ، میری طرف بڑھے اور لجاجت سے کہنے لگے: ’’تمہیں خدا کا واسطہ،ہمارے کھانے میں ضرور شریک ہو۔‘‘مجھے معلوم نہ تھا کہ کھانا نکل چکا ہے۔ بڑی بے تکلفی سے میں نے دعوت قبول کرلی۔ وہ لوگ پانچوں انگلیوں سے کھاتے تھے ۔میں نے بھی ان کی ریس کی ،تاکہ میرے کھانے سے اُنہیں گھن نہ آئے۔ کھانے کے بعد پانی پیا ، اور شکر ِخداوندی کے ساتھ اپنے بوڑھے میزبان کابھی شکریہ ادا کیا۔ اب بڑے میاں نے سوال کیا: تم مکی ہو؟ میں نے جواب دیا،جی ہاں ، مکی ہوں ۔کہنے لگا: قریشی ہو ؟ میں نے کہا:ہاں ، قریشی ہوں ۔ پھر خود میں نے پوچھا: چچا ! یہ آپ نے کیسے جانا کہ میں مکی اورقریشی ہوں ؟بوڑھے نے جواب دیا:’’شہری ہونا تو تمہارے لباس سے ہی ظاہر ہے، اور قریشی ہونا تمہارے کھانے سے معلوم ہوگیا۔ جوشخص دوسروں کا کھانابے تکلفی سے کھالیتا ہے اور یہ بھی چاہتا ہے کہ لوگ اس کا کھانا بھی دل کھول کے کھائیں ، تو یہ خصلت صرف قریش کی ہی ہے۔‘‘ میں نے پوچھا:آپ کہاں کے رہنے والے ہیں ؟ بوڑھے نے جواب دیا:رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاشہر’ یثرب‘ میرا وطن ہے۔ میں نے پوچھا: مدینے میں کتاب اللہ کا عالم اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم |