دار الإفتاء ایفاے عہد کا عدالتی طورپر لزوم !؟ سوال:ایک شخص کے چند بیٹے کاروبار کے علاوہ دینی اور رفاہی کام بھی کرنا چاہتے ہیں ، وہ عدالت کے روبرو باہمی معاہدہ کرتے ہیں کہ جو بیٹے کاروبار کریں گے، وہ دینی اور رفاہی خدمات کا خرچ بھی برداشت کرتے رہیں گے۔ عام طور پر مشہور ہے کہ صدقہ یا ہبہ کا وعدہ پورا کرنا ضروری نہیں ہوتا لیکن عدالت نے اس معاہدے کی توثیق کرتے ہوئے فیصلہ سنادیا ہے۔ اب اس سلسلے میں درج ذیل سوالات کے شرعی جوابات مطلوب ہیں : 1. وعدہ یا عقد ایک ہی چیز ہیں یا الگ الگ؟ 2. عدالتی فیصلہ سے اس پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں ؟ 3. اگر کسی وقت عدمِ استطاعت کا مسئلہ پیداہو جائے تو اس کاکیا حل ہوگا؟ جواب:صورتِ مسؤلہ میں باہمی معاہدے کی حیثیت شرعی طور پر عقد کی ہے جس کا پورا کرنا ضروری ہے۔ اگر کوئی اس میں پس وپیش کرے تو اسے بذریعہ عدالت مجبور کیا جاسکتاہے کہ وہ اپنا وعدہ پورا کرے جیساکہ صحیح بخاری میں حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ ، معروف تابعی حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ اور قاضیٔ کو فہ سعید بن اشوع رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے۔ (صحیح بخاری:بَابُ مَنْ أَمَرَ بِإِنْجَازِ الْوَعْدِ ) امام اسحق بن راہویہ بھی اسی نقطہ نظر کے حامی ہیں ۔ (حوالہ مذکورہ) ٭ خلیفہ راشد حضرت عمر رحمۃ اللہ علیہ بن عبد العزیز بھی اسی کے قائل ہیں ۔ ٭ اس حوالے سے یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ اگر مسئلہ ایسے یک طرفہ وعدے کا ہوتا جس سے دوسرے فریق پر کوئی ذمہ داری عائد نہ ہو تی تو اختلاف کی گنجائش تھی لیکن ایسا وعدہ جوکسی سبب سے متعلق ہو، جملہ فقہا کے نزدیک اِجماعی طورپر پورا کرنافرض ہے۔ (تفسیر قرطبی:ج۹/ص۷۹) |