سیاست وخلافت محمد زاہد صدیق مغل موجودہ مسلم ریاستیں اور خلافت ِاسلامیہ دنیا کے ۵ درجن کے لگ بھگ مسلم ممالک میں اس وقت کس نوعیت کا اجتماعی نظام مؤثر طور پر کار فرما ہے، اور یہاں کے ’مسلم‘معاشرے کن اساسی تصورات کے تحت تشکیل پارہے ہیں ؟ یہ اس دور کے باشعور مسلمان کے لئے بنیادی اہمیت کا سوال ہے۔ اس بارے میں ایک واضح موقف اختیار کرنے کے بعد ہی معاشرتی اصلاح کے دینی فریضے سے عہدہ برا ہونے کے لئے موزوں لائحہ عمل تجویز اور اختیار کیا جاسکتا ہے۔ زیر نظر تحریر میں مغربی ریاست اور اسلامی اجتماعیت کے بعض فکری پہلوؤں کا تقابل کرتے ہوئے بعض اہم نکات کی نشاندہی کی ایک مخلصانہ کوشش کی گئی ہے۔مزید تائیدکے لئے اسی شمارہ میں مشہور برطانوی فلسفی برٹرینڈرسل کے ایک مضمون کا اُردو ترجمہ بھی شامل اشاعت ہے۔ راقم بھی اس سلسلے میں کافی عرصے سے ایک رائے رکھتا ہے، جو زیر نظر فکری و فلسفیانہ تجزیہ کی بہ نسبت قدرے واقعاتی اور ظاہری ہے۔ زیر نظر مضمون کے بعد، آئندہ شمارہ میں اسی بحث کو ایک دوسرے زاویہ سے پیش کیا جائے گا، ان شاء اللہ (مدیر) اس مضمون میں ہم خلافت اور موجودہ مسلم ریاستوں کے بنیادی فرق پر روشنی ڈالیں گے جس سے یہ واضح ہوجائے گا کہ اکثر و بیشتر مسلم ریاستیں خیر القرون کی خلافت تو کجا خلافت ِعثمانیہ و مغلیہ کے ہم پلہ بھی نہیں ۔ درج ذیل تمام فرق بذاتِ خود تفصیل طلب موضوعا ت ہیں لیکن نفسِ مضمون کا لحاظ اور خوفِ طوالت کے سبب ہم اختصارکو ملحوظِ خاطر رکھیں گے۔ اوّل: قومی بمقابلہ اسلامی ریاست خلافت اور موجودہ ریاستوں کا پہلا فرق یہ ہے کہ اب ہم نے قومی ریاستیں قائم کرلی ہیں ، جبکہ پہلے کبھی ایسا نہ ہوا تھا ۔ قوم کا مطلب ہے: ایک مخصوص جغرافیائی حدود کی بنا پر اپنا تشخص تلاش کرنا، جیسے پاکستانی، عراقی، ایرانی وغیرہ۔ یہ ویزے اور سفارتخانوں (embacies) کی بھرمار اسی قوم پرستانہ تصورِ تشخص کا نتیجہ ہے ۔ قوم پرستی کی چند بنیادی صفات ہیں : |