عام حاصل نہ ہوگا۔لہٰذا اُٹھتے بیٹھے یہ شور مچاؤ کہ قرآن و سنت جامع نہیں ہیں ۔ قرآن وسنت میں ہر مسئلے کا حل موجود نہیں اور دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات نہیں ہے۔ حاصل کلام: مشہور مقولہ’الکفر ملۃ واحدۃ‘ کی طرح گمراہ فرقے اور افراد بھی یکساں بنیادوں کے حامل ہوتے ہیں ۔ البتہ ان کی گمراہی گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے کی کوشش ہوتی ہے۔ غور فرمائیے کہ ہم نے مذکورہ بالا جن نام نہاد دانشوروں کا نظریۂ اجتہاد پیش کیا، ان سب کا مرکزی خیال غلام احمد پرویز کے مرکز ِ ملت کا پرتو یا اس کے مختلف پہلو ہیں ،جس کی رو سے شریعت محمدیہ قیامت تک تشکیل پانے والی نظائر میں سے ایک نظیر کی حیثیت بن جائے گی، گویا اجتہاد شریعت ِمحمدی صلی اللہ علیہ وسلم میں اضافے یا تغیر وتبدل کا ہی دوسرا نام ہے۔ یعنی بعد رسالت تمام خلفا اور مسلمان حکمران جو اجتہاد کرتے یا کراتے رہے،ان کی حیثیت بھی اجتہاد رسالت کی طرح نظائر کی ہے۔ لہٰذا راشد شاز صاحب نے ان نظائر کو تاریخی اسلام قرار دے کر نظریاتی اسلام اپنے ہاتھ میں رکھنے کی کوشش کی ہے۔اگر مذکورہ بالا بقیہ نظریات کا مرکزی خیال متعین کرنے کی کوشش کی جائے تو ان سب کا حاصل غلام احمد پرویز والا شریعت کا دائمی تغیر وتبدل والا نظریۂ تسلسل ہے۔دوسری طرف بعض متجددین آخر الزمان نبی محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کا مقصد یہ نظریہ قرار دینے میں کوشاں ہیں کہ انسانی عقل بلوغت حاصل کرنے کے بعد حجاز میں اتنی مکمل ہو گئی تھی کہ شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی تشکیل کی صورت میں سامنے آئی۔ اب اس کے بعد اجتہاد کے نام پر سارا کام اسی بالغ عقل کا ہے، اس لیے اس بالغ عقل کا دروازہ کھلا رہنا چاہیے،حالانکہ یہ عقائد ملحدانہ ہیں ۔عقل عیار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے اس لیے وہ وحی ربانی کے تابع رہ کر تومفید ہو سکتی ہے،لیکن شریعت کی تشکیل ناقص طور پر یا کامل طور پر کرنے لگے تو ترقی کی بجائے اتھاہ گہرائیوں میں گرانے والی ثابت ہوتی ہے۔ اسی لیے کسی گفتگو سے قبل یہ عقیدہ پختہ کرنے کی ضرورت ہے کہ شریعت ِمحمدیہ کامل واکمل ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے تکمیلِ رسالت کے بعد نظریۂ مرکز ِ ملت یا نام نہاد بلوغت ِعقل کا نظریہ یا شریعت کی تکمیل اور اس میں اضافے کا نکتہ نظرختم نبوت ورسالت کے عقیدہ کے منافی ہے۔ اس موضوع پر مزید بحث ہم ان شاء اللہ ’محدث‘ کے قریبی شمارے میں کریں گے۔ |